تحریر ۔نظام الدین
کیا آپ جانتے ہیں؟؟؟
تاج ، تلوار، ، اقتدار ، کی طاقت ہمیشہ قائم نہیں رہتی ، مگر لفظ ہمیشہ قائم رہتے ہیں ، وہ کسی کتاب میں ہوں ، کوئی معاہدہ طے پایا گیا ہو ، یآ پھر صدیوں پرانے کھنڈرات سے ملنے والے بے شمار کندہ الفاظ” حال کے اندر ماضی دیکھاتے اور مستقبل سے آگاہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں,
انسانی تاریخ کا پہلا دستور بھی لفظوں سے تخلیق کیا گیا، جس کے خالق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے ،
دستور (622 ای) تاریخ کی پہلی تحریری دستاویز جو رسول اللہ نے مدینہ میں مختلف قبیلوں، یہودیوں، عیسائیوں اور بت پرستوں کے درمیان تخلیق کی !!!
حمورابی کوڈ
(1750 قبل مسیح) بھی دستور مدینہ سے پہلے ایک تحریری قانون تھا ، مگر یہ صرف ایک جرمانہ ضابطہ تھا ۔ یہ کوئی دستور یا آئین نہیں تھا،
“یعنی” صرف سماجی کنٹریکٹ ، ریاستی نظام+ +
ایتھنز کی جمہوریت تقریباً
( 500 قبل مسیح) میں بھی جمہوری قانون اور اسمبلی تھی لیکن کسی چارٹرڈ یا قوانین کے طور پر نہیں،،،
اسی طرح تقریباً
(13 ویں صدی قبل مسیح)
میں دس احکام عشرہ اوامر حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر دیے گئے جس کا مقصد یہودی بنی اسرائیل کو اخلاقی و دینی اصول سمجھنا تھے ،،
بعض مورخین میگا کارٹا کو پہلا عالمی معاہدہ قرار دیتے ہیں جبکہ (دستور مدینہ 622) میں تخلیق پا چکا تھا اور (میگنا کارٹا 600) سالوں بعد 1215 میں انگلستان کے شاہ اول کے زمانے میں کاپی کیا گیا،، اس طرح “
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ انسانی کے پہلے دستور ساز تھے یہ دستورِ مدینہ میں پہلی بار مختلف برادریوں مسلمان ، یہود اور بت پرستوں کو شامل کرکے ریاست اور سماج کا تحریری معاہدہ متفقہ طور پر طے کیا گیا تھا۔
دستور مدینہ تاریخ کی پہلی دستاویز ہے جس میں شہری حقوق، مذہبی ، آزادی ، اور نظام عدل کے تحفظ کی اجتماعی زمہ داری لکھی گئی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے بہت سے اہل علم و دانش دستور مدینہ کو (پروٹوٹائپ) یا جدید آئین کا آغاز ماڈل لکھتے اور سمجھاتے ہیں، یہ دستور(622 ای) جب تشکیل دیا گیا تب”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مختلف قبیلوں ، مذاہب کے شہریوں مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں، بت پرستوں کو تحریری معاہدہ کرنے کی ترغیب دی “
تمام شہریوں کی شناخت ، حقوقِ ، اور فرائض لکھے گئے”
اور تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی”
اس میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ مدینہ کی حفاظت سب کی اجتماعی ذمہ داری ہوگی “
کسی حملہ کی صورت میں ہم سب مدینہ کی حفاظت کریں گے”
سب کی رضامندی سے یہ طے پایا گیا کہ کسی بھی قسم کے حالات ( تنازعہ) کی صورت میں آخری فیصلہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم ہی کریں گے،،
دستور مدینہ میں زور دیا گیا کہ تنازعات قرآن کی روشنی اور رسول اللہ کی معرفت طے کیے جائیں گے، مگر غیر مسلموں کو اپنی روایات کے مطابق تنازعات حل کرنے کی اجازت دی گئی”
دستور میں جنگ، دفاع اور ٹیکس سب کی مشترکہ ذمہ داری تھی”
عرب معاشرے میں پہلی بار خواتین کے حقوق کو تسلیم شدہ شہری لکھا گیا”
دستور مدینہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی ؤ سماجی فلسفے کا احساس دلاتا ہے”
جو ریاستی ماڈل ٫ سماجی انصاف اور سول پارٹنرشپ پر مبنی ہے”
ریاست کا بنیادی کام یا مقصد سب کو یکساں تحفظ اورحقوق فراہم کرنا غیر مسلموں کی شہریت اور مذہبی آزادی دستور مدینہ میں شامل ہے”
موجودہ دور کے عالمی حالات کے مطابق
دستور مدینہ کے پیچھے صرف گزرے لفظ نہیں بلکہ مستقبل کا ڈھانچہ بھی ہے جس میں دنیا کو سمجھا یا گیا ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنے میں خیر ہی خیر ہے ،،،
.