آج دنیا مادر پدر آزادی کے سیلِ بے کراں میں ہچکولے کھارہی ہے۔ انسانیت کی عوجِ سے مادر پدر آزادی کے قعرِمذلت میں گرتا انسان اب ہاتھ پاوں ماررہا ہے کہ وہ کسی طرح اس کھائی سے بچ سکے لیکن جب خود چھلانگ لگائی ہوتوکوئی کیسے بچاسکتا ہے۔باقی دنیا کو چھوڑیں پاکستان جو ایک مذہبی نظریاتی ریاست ہے۔اس میں انسانیت مذہب گریزی کی اس حد پر پہنچ چکی ہے کہ اگرکسی کومذہب کے حوالے سے کوئی شدبدہے بھی تووہ اس کوصرف ایک کاروبار یااپنا علم یا فن سمجھ رہا ہے۔مذہب کہنے کوتوایک قوم کا امتیاز ہے اس کی پہچان ہے، لیکن وہ اس پہچان کو باقی ثقافتی پہچانوں کی طرح ایک ظاہری حوالہ ہی سمجھے ہوے ہیں۔خود مذہب کے علماء تک نے مذہب کوصرف ایک علم کی حدتک اپنا رکھا ہے۔جبکہ پاکستان کی تحریک سے لے لیکر آج تک ایک ہی نعرہ لگ رہا ہے کہ ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ“توکیا لاالہ الااللہ صرف ایک سلوگن ہے، یا یہ ایک دین ہے، اورکیا دین صرف ذکرواذکاراورچندعبادات کا نام ہے؟کیااس دین میں کوئی طرزِ زندگی،کوئی طرزِ حکومت،کوئی طرزِ معاشرت، کوئی طرزِ عدل وانصاف موجود نہیں؟اگرہے توکیا ہمارے معاشرے، ہمارے نظام، ہمارے عدل وانصاف، ہماری حکمرانی میں اس کی کوئی جھلک موجودہے؟اگرنہیں توکیوں؟صرف اس لیے کہ ہم اپنے دین، اپنی معاشرت، اپنی ثقافت سب سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جومنہ میں کلمہ اوربغل میں کفر لیے پھرتے ہیں،کوئی بھی آسمانی دین جب بھی آیا ہے تووہ صرف اللہ کی عبادت رکوع وسجود کے لیے نہیں بلکہ جب بھی آیا ہے،وہ احکام الہی کومعاشرت، نظام اور حکومت میں چلانے کے لیے آیا ہے۔اسی طرح اسلام صرف کعبے سے بت گرانے نہیں آیا تھا، بلکہ انسانیت کوتوقیر دلانے آیا تھا، اورپھر اس اتنے بڑے خون خوار معاشرے میں جہاں بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا،وہاں توقیرِ انسانیت یہ ہوئی کہ بیٹیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا،غلاموں مجبوروں اور بے کسوں کو اللہ کا کنبہ قرار دیا گیا،انسانیت توقیر کے اس معراج پر پہنچی کہ فرشتوں کو بھی اس کے قدموں میں پربچھانے پڑے۔لیکن میرے آقائے کریم ﷺ نے فرمایا تھا، بداالاسلام غریبا وسیعود غریبا کمابدافطوبیٰ للغرباء، کہ اسلام کی ابتداغریب تھی اورعنقریب یہ غربت میں لوٹ جائے گاپس غرباکے لیے خوشخبری ہے۔ علامہ اقبال نے بھی جوابِ شکواہ میں فرمایا ہے۔”جاکے مساجد میں ہوتے ہیں صف آراتوغریب،زحمتِ روزہ جوکرتے گواراتو غریب،نام لیتا ہے گرکوئی ہمارا تو غریب،پردہ رکھتا ہے گر کوئی تمہارا تو غریب،امراء نشہِ دولت میں غافل ہیں ہم سے،زندہ ہے ملتِ بیضا غربا کے دم سے“۔یعنی غریب جہاں دعاوعبادت میں اللہ کی طرف رجوع کیے ہوے ہیں،وہاں ہی وہ اسلام کے آفاقی اصولوں پر بھی کاربندہیں، غریب اکثر معاشرتی معاملات میں وعدہ وعید میں بات کرنے میں جھوٹ سے صرف اس لیے پرہیزکرتے ہیں کہ اسلام نے اس سے منع کیا ہوا ہے، یہی وہ سادگی ہے کہ الیکشن میں یہ امیر یوٹرن لینے والے غرباسے ووٹ کا وعدہ لے کر انہیں باربار ڈراتے ہیں کہ وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور غریب اسی ڈر سے ایسے بے ضمیروں کو وٹ دے دیتا ہے کہ جنہیں نہ خدا کا خوف ہوتا ہے نہ شرمِ خلق۔تواسلام اس طرح ان غربا کی آستینوں میں چھپا بیٹھا ہے۔ یہ اسلامی معاشرہ جو بے نوا قسم کے مجبورلوگوں پر مشتمل ہے، یہ اللہ کا نام بھی لیتے ہیں اوران مسلم امت کے نام پردھبہ لوگوں کی عزت بھی بچاتے ہیں،ہرفیلڈ میں یہی طبقہ ہے جواسلام اور پاکستان کو بچائے ہوے ہے،اسی لیے شیطان نے اپنے چیلوں سے بقول علامہ اقبال کہا تھا، ”یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا، روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو“۔یہی وہ طبقہ ہے جس کے بدن سے روحِ محمدنکالنے کے لیے عالمی شیطانی اور دجالی قوتیں دن رات غرباکو پھانسنے کے لیے اپنے منصوبے ngo,s کے ذریعے اورملک کے اندر کے مادرپدر آزاد امراکے ذریعے، عالمی ایجنٹوں کے ذریعے جواس ملک کے مختلف طبقات میں موجود ہیں،مصروفِ عمل ہیں۔آج پاکستان میں توقیرِ آدمیت کوہرطرح سے ختم کیا جارہا ہے،ہرچیز کو دولت کے پلڑے میں تولاجارہا ہے۔نظامِ مملکت عالمی احکام پرچل رہا ہے، لیکن جہاں عالمی طورپرمادر پدر آزادانسان کو بھی ایک تحفظ اور توقیر حاصل ہے،وہاں اس ملک میں جو بظاہر اسلامی ہے،اورپھر عالمی تقلید میں جمہوری بھی ہے، لیکن توقیر آدمیت کے لحاظ سے یہ اشرافیہ کوتوقیردیتا ہے، یہ غرباکوقابلِ احترام نہیں سمجھتا، اس میں حکومت وسرکارمیں جوہے، اس کی عزت ہے،جواس کے علاوہ ہے،وہ قابلِ مواخذہ ہے، سرکاری ملازم اوراشرافیہ کے جرم میں شک کا فائدہ دیا جاتا ہے، کہ اسلام کہتاہے،کہ سزاکی غلطی سے معافی کی غلطی بہترہے، لیکن غریب کے لیے سزاکی غلطی ہی لازم ہے۔اس کی وجہ ہمارے ملک کے علماء واتقیاء بھی ہیں جنہوں نے بھی اپنے اپنے مشرب میں ہرصاحبِ ثروت کوترجیح دی ہوئی ہے،ہمارے ماضی قریب میں ایک بزرگ گزرے ہیں، بقول راوی ان کے پاس ایک دن صبح ہی صبح ایک غریب نانِ شبینہ کا محتاج آ کر بیٹھ گیا،دوپہرتک ان کے پاس کوئی اورحاجت مندنہ آیا تووہ آگ بگولہ ہوکراٹھے لٹھ اٹھایااوراس غریب کومارنا شروع کردیاکہ یہ منحوس جب سے آیا ہے، اللہ کی رحمت آنا بند ہوگئی ہے، وہ ابھی بھاگا ہی تھا، کہ اس علاقے کے ایک بہت بڑے ملزمالک آگئے، بزرگ بابا اٹھے اور آگے جاکر استقبال کیا، دیکھویہ اللہ کی رحمت آگئی ہے،اسی طرح علماء ممبررسول پربیٹھ کرانہیں کیلیے دعائیں کرتے ہیں، جن کے پاس اللہ کی رحمت ہوتی ہے، اسی لیے ساغرصدیقی نے کہاہے ”جس میں کچھ انسان کی توقیرکے احکام تھے،وہ شریعت معبدوں کے زیرِ سائیہ سوگئی،آگئی بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں، جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مرگیا ہے آدمی۔“ اللہ تعالیٰ اسلامی توقیرانسانیت کوپاکستان میں جاری فرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم
جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے

Facebook Comments Box