از قلم: عبدالمجید میتلا
پاکستان اس وقت بے شمار معاشرتی اور اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے، جن سے نکلنے کے لیے تعلیم یافتہ اور مہارت یافتہ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ ملک کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں تعلیمی پروگرامز کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے، لیکن عملی تربیت اور ہنر مندی کا عنصر نہایت حد تک مفقود ہے۔ محض ڈگریوں کی فراہمی، بھاری فیسوں کے حصول اور تھیوری پر مبنی تعلیم پر اکتفا کرنا، تعلیمی معیار اور طلبہ کی مستقبل بنیاد ترقی کے لیے ناکافی ہے۔
صحت اور تعلیم کسی بھی قوم کے دو اہم ستون ہیں۔ اگر ان دونوں شعبوں کو مؤثر اور منظم حکمت عملی کے ساتھ یکجا کر دیا جائے اور ان میں عملی تربیت کا بھرپور نظام قائم کیا جائے تو قومی بہتری کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ پاکستان کے بہت سے اداروں میں صحت سے متعلقہ پروگرامز مثلاً میڈیکل لیب ٹیکنالوجی، نرسنگ، نیوٹریشن اور ڈائٹیٹکس متعارف کرائے جا چکے ہیں، مگر اِن شعبوں میں عملی تعلیم کے امکانات ابھی بھی محدود ہیں۔ اکثر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ کے بعد طلبہ جب کسی ہسپتال یا پریکٹیکل فیلڈ میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں وہاں خاطر خواہ رسائی یا مواقع نہیں ملتے۔ نتیجتاً وہ تجربہ حاصل کیے بغیر یا ناکافی تربیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں۔
ان شعبوں کا تعلق براہ راست انسانی صحت اور بھلائی سے ہے، اس لیے محض کتابی علم و رٹا لگانے سے نہیں چلایا جا سکتا۔ ڈگری کے اختتام تک طلبہ کو فیلڈ ورک، ہسپتال میں انٹرن شپ اور عملی کام لازم بنیادوں پر مہیا کرنا چاہیے، تاکہ وہ نظری علم کو عملی مہارت میں ڈھال سکیں۔ اس سلسلے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو یہ ذمہ داری لینی چاہیے کہ بغیر مکمل اسٹاف، عملی تربیت کے منظم نظام اور سہولیات کے کسی ادارے کو اس قسم کے پروگرامز چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اسی طرح، تمام تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ ڈگری کے آخری حصے میں طلبہ کو مرحلہ وار عملی میدان سے متعارف کرائیں، تاکہ وہ فارغ التحصیل ہونے تک مستند تجربہ حاصل کرچکے ہوں۔
اگر پاکستان نے اپنے نوجوانوں کو صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ مہارت یافتہ اور تجربہ کار پروفیشنل بنانا ہے تو تھیوری کے ساتھ عملی تعلیم کا رواج ناگزیر ہے۔ اس سے نہ صرف بے روزگاری میں کمی آئے گی، بلکہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے فارغ التحصیل نوجوان اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکیں گے۔ جس طالب علم کے پاس عملی تعلیم اور تجربہ نہیں، وہ صرف برائے نام ڈگری کے ساتھ عملی دنیا میں زیرو ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخر میں طالب علم تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتا ہے ۔ یہی وہ خلا ہے جسے پُر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔