شہرِ قائد کا زوال

تحریر ۔ نعمان احمد
ایک زمانہ تھا جب کراچی کو “روشنیوں کا شہر” کہا جاتا تھا۔ اس کی گلیاں جگمگاتی تھیں، رات کی چمک اس کی معاشی اور ثقافتی زندگی کی عکاسی کرتی تھی۔ لیکن آج، کراچی دنیا کے بدترین رہائشی شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ گندگی کے ڈھیر، ناقص بنیادی ڈھانچہ، اور خراب انتظامیہ نے اس شہر کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس زوال کی ایک بڑی وجہ، بہت سے لوگوں کے نزدیک، میئر کراچی کی ناقص کارکردگی اور انتظامی ناکامی ہے۔
کراچی کبھی پاکستان کا معاشی دل تھا۔ بندرگاہ، کاروباری مراکز، اور ثقافتی تنوع اس کی شناخت تھے۔ یہ شہر ہر طبقے کے لوگوں کو مواقع فراہم کرتا تھا، چاہے وہ تاجر ہوں، مزدور ہوں، یا فنکار۔ رات کو کراچی کی گلیوں میں روشنیوں کی چمک اس کی ترقی کی علامت تھی۔ لیکن آج، یہ شہر اپنی شناخت کھو چکا ہے۔ گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیں، اور پانی کی قلت نے کراچی کو ایک بدحال شہر بنا دیا ہے۔
کراچی کے زوال کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم انتظامی نااہلی ہے۔ کراچی کے میئر شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہے۔ کچرے کے انتظام کا نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ شہر کی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر جمع ہیں، جو نہ صرف بدبو اور بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں بلکہ کراچی کی خوبصورتی کو بھی داغدار کر رہے ہیں۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تحت پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کا نظام بھی بدترین حالت میں ہے۔ بہت سے علاقوں میں لوگوں کو صاف پانی تک رسائی نہیں، جبکہ گٹروں کا پانی سڑکوں پر بہتا نظر آتا ہے۔
شہر کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ کچرے کے انتظام کے لیے کوئی موثر نظام نہ بنایا گیا، نہ ہی بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے کوئی جامع منصوبہ پیش کیا گیا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ میئر نے سیاسی مفادات کو ترجیح دی اور عوامی مسائل کو نظر انداز کیا۔ مثال کے طور پر، برساتی نالوں کی صفائی پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہر سال مون سون کے موسم میں کراچی ڈوب جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹریفک کے مسائل، غیر قانونی پارکنگ، اور تجاوزات نے شہر کو مزید بدحال کر دیا ہے۔
کراچی کے شہریوں کو روزمرہ کی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گندگی کے ڈھیر نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہیں بلکہ ڈینگی اور ملیریا جیسی بیماریوں کو بھی دعوت دیتے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت، اور ناقص پبلک ٹرانسپورٹ نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کراچی کے رہائشی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے ترستے ہیں، جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
کراچی کو دوبارہ “روشنیوں کا شہر” بنانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، کچرے کے انتظام کے لیے ایک موثر نظام بنانا ہوگا۔ جدید ری سائیکلنگ پلانٹس اور باقاعدہ کچرا اٹھانے کی سہولت کو یقینی بنایا جائے۔ دوسرا، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو فعال کر کے پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ تیسرے، برساتی نالوں کی صفائی اور شہر کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔ آخر میں، شہریوں کی آواز کو سنا جائے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک شفاف نظام بنایا جائے۔
کراچی، جو کبھی پاکستان کی شان تھا، آج بدحالی کا شکار ہے۔ کراچی میئر کی ناقص کارکردگی نے شہر کے مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ اگرچہ اکیلے ان تمام مسائل کے ذمہ دار نہیں، لیکن ان کی انتظامی ناکامی نے کراچی کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شہر کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ یہ “روشنیوں کا شہر” ہمیشہ کے لیے تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ اللہ پاک ہمیں اس ملک پاکستان اور خاص طور پر اس شہر کراچی کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *