پاکستان نے ہمیشہ اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ وہ شدت پسندی کو بطور پالیسی استعمال کرتا ہے۔ حکام نے اس طرح کے الزامات کو ’’سیاسی پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیا ہے اور ریاست کے فیصلہ کن اقدامات کی مثالیں پیش کی ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب سے ردالفساد تک اور حالیہ آپریشن سربکف تک، پاکستان نے مسلسل فوجی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے اور انتہاپسند تنظیموں کی کمر توڑ دی۔
ان اقدامات کے اثرات عالمی اداروں کی رپورٹس میں بھی نمایاں ہیں۔ فروری 2025 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 35ویں مانیٹرنگ رپورٹ میں کہا گیا کہ داعش (ISKP) کی صلاحیت اس حد تک سکڑ چکی ہے کہ وہ پاکستان میں بڑے حملے خود سے نہیں کر سکتی۔ رپورٹ میں مزید تسلیم کیا گیا کہ پاکستان نے داعش کے رہنماؤں کو یا تو ختم کیا یا امریکا اور ترکی جیسے شراکت داروں کے حوالے کیا۔ یہ محض تکنیکی حقائق نہیں بلکہ پاکستان کی جامع انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی کا اعتراف ہیں۔
پاکستان کی کامیابیوں کا اعتراف سفارتی سطح پر بھی ہوا۔ سلامتی کونسل کی سزاؤں سے متعلق کمیٹی کی سربراہی اور کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کی نائب صدارت پاکستان کو ملی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں اعتماد کرتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان صرف اپنی سرزمین کا دفاع نہیں کر رہا بلکہ عالمی امن کی جنگ میں بھی شریک ہے۔
یہ حقیقت اُن منفی پروپیگنڈوں کے بالکل برعکس ہے جن میں داعش کو ’’پاکستانی اداروں کی پراکسی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے بیانیے، جو مخالف قوتوں کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں، پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات کے بعد بھی ریاست نے دوٹوک اعلان کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف انصاف ہر حال میں ہوگا جبکہ جمہوری و سیاسی سرگرمیوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
پاکستان کا ماڈل اقوامِ متحدہ کے اس اصول سے ہم آہنگ ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی ہر ملک کی اپنی ملکیت ہونی چاہیے۔ پاکستان کے لیے اصول سادہ ہے: کوئی بھی گروہ، چاہے اس کی نظریاتی بنیاد کچھ بھی ہو، آزادانہ طور پر پاکستانی سرزمین پر کام نہیں کر سکتا۔ یہ صورتحال افغانستان کے بالکل برعکس ہے، جہاں حکمرانی کی کمزوری نے داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔
پاکستان کے اندر ان گروہوں کو پناہ گاہ نہیں مل سکی۔ داعش کے چھوٹے چھوٹے منتشر سیل محض بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قیادت کے خاتمے نے بھی ان کی صلاحیت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ داعش کمانڈر عبد الملک کی ہلاکت دراصل گروہ کی کمزوری اور اندرونی خلفشار کی علامت ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا مسلسل دباؤ رنگ لا رہا ہے۔
پاکستان کی اصل تشویش کی جڑ افغانستان کا غیر محفوظ ماحول ہے۔ اگست 2025 کی رپورٹ میں کم از کم 21 دہشت گرد تنظیموں کی نشاندہی کی گئی جو افغان سرزمین سے کام کر رہی ہیں۔ اس سے قبل جولائی 2024 کی رپورٹ نے بتایا تھا کہ طالبان نے ٹی ٹی پی کے قیدیوں کو رہا کرکے بغاوت کو دوبارہ ہوا دی۔ فروری 2025 کی رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ امریکی ہتھیاروں کے ذخیرے پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے ٹی ٹی پی اور داعش کے پاس پہنچ گئے۔ یہی عوامل پاکستان میں 2021 سے 2024 کے دوران دہشت گرد حملوں میں 279.8 فیصد اضافے کی بڑی وجہ بنے، جسے روزنامہ ڈان نے بھی رپورٹ کیا۔
اس کے باوجود پاکستان نے شدت پسند تنظیموں کو اندرونی طور پر جڑ پکڑنے نہیں دی۔ آپریشنز کے ذریعے پناہ گاہیں ختم کی گئیں، نیٹ ورکس توڑے گئے اور غیر ملکی پشت پناہی کو بے نقاب کیا گیا۔ اسلام آباد بارہا یہ بتا چکا ہے کہ بھارت خفیہ طور پر ٹی ٹی پی اور داعش کو مالی اور آپریشنل سہولتیں فراہم کرتا ہے، مگر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ان عزائم کو بھی ناکام بنایا۔ داعش کمانڈر عبد الملک کی ہلاکت اس عزم کی تازہ مثال ہے۔
عالمی برادری بھی پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس نے پاکستان کے اقدامات کو سراہا جبکہ امریکی جرنیلوں نے پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی میں ’’شاندار شراکت دار‘‘ قرار دیا۔ تصویر بالکل واضح ہے: داعش ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، قیادت تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور اس کی صلاحیت سکڑ رہی ہے۔
جنوبی ایشیا کے لیے سبق بھی بالکل صاف ہے۔ دہشت گردی وہاں پنپتی ہے جہاں کمزور حکمرانی اور محفوظ پناہ گاہیں موجود ہوں، لیکن مستقل مزاجی، قومی ملکیت پر مبنی اقدامات اور عالمی تعاون سے اسے جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ عزم و تسلسل سے شدت پسند گروہوں کو زمین تنگ کی جا سکتی ہے۔