دائرے ۔۔۔۔۔ اوصاف شیخ
امریکہ نے سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد چھٹی بار ویٹو کر کردی ، قرارداد میں قیدیوں کی فوری رہائی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی شامل تھی۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ قرارداد حماس کی مذمت یا اسرائیل کے دفاع کو تسلیم نہیں کرتی۔
سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے حمایت کی، مگر امریکی ویٹو سے قرارداد مسترد۔ دوسری طرف دو سال سے غزہ پر مسلسل بمباری ، وحشیانہ حملوں ، اسرائیلی بربریت کے مظاہروں میں 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے جبکہ اس سے کئی گنا زیادہ زخمی اور بھوک سے دو چار ہیں ، غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اسرائیل دنیا سے فلسطینیوں کے لیئے کسی قسم کی امداد بھی وہاں پہنچنے نہیں دے رہا اور اب اسرائیل نے اپنے توسیع پسندانہ منصوبے
کے تحت غزہ شہر پر قبضے کی باضابطہ پیش قدمی شروع کر دی ہے
ٹینکس اور فوجی جوان غزہ کے کئی علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں، اور انٹرنیٹ و فون سروسز بند کر دی گئی ہیں۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق اسرائیل “حماس کے عسکری ڈھانچے” تباہ کرنے اور یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے کارروائی کر رہا ہے، لیکن اس سے ہلاکتوں اور انسانی بحران میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر قبضے کی کوشش کا بظاہر مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا اور غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ نیّتن یاهو حکومت “آپریشن گڈیونز چاريوٹ” کے تحت غزہ کے بیشتر حصے پر قابض ہو چکی ہے اور اب خاص طور پر غزہ شہر پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ قبضہ قابض عمل فلسطینی انتظامیہ کو مسترد کرتے ہوئے غیر عرب فورسز کے ذریعے گورننس قائم کرنے کی کوشش ہے، جو عرب دنیا میں نا قابل قبول بھی ہے۔
علاوہ ازیں، اسرائیل کی پالیسی اور قبضے کی توسیع پسندانہ نوعیت کو “گریٹر اسرائیل” کے خواب سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے، جس میں مغربی کنارے اور دیگر مقامات پر یہودی بستیوں کا توسیع شامل ہے، جس سے فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کمزور ہوتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرار داد بار بار ویٹو کرنے سے وہ یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ طاقتور معیشت، فوجی صلاحیت اور عالمی اثر کی وجہ سے امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ہے
چین اور روس بھی بڑے کھلاڑی ہیں، خاص طور پر خطے میں سفارتی کردار ادا کر رہے ہیں اور امن کی کوششیں کر رہے ہیں، مگر وہ امریکہ جتنا براہِ راست یا سنجیدہ نہیں ہیں دونوں ممالک اسرائیل فلسطین اور غزہ کے تنازع پر امریکہ کی نسبت تھوڑا نرم اور مبصرانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ستاون اسلامی ممالک سے زیادہ جنگ بندی کے لیئے سرگرم نظر آ تے ے ہی اسلام ممالک تو صرف مذمتی بیانات اور جنگ بندی کے زبانی مطالبات تک محدود ہیں جبکہ سلامتی کونسل میں دنیا کے مضبوط ہندی ممالک میں سے چودہ نےجنگ بندی کی کوشش کی اور قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ ایک رکن امریکہ بات بار قرار داد ویٹو کر کے دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ اسرائیل کے پیچھے امریکہ ہی ہے
امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت اس لیے بھی ہے کہ اسرائیل امریکہ کا اہم اسٹریٹجک اتحادی ہے جو مشرق وسطیٰ میں اس کا سیاسی و عسکری اثر بڑھاتا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی عسکری، مالی اور سفارتی مدد دی ہے تاکہ وہ خطے میں اپنے دفاع کو مضبوط رکھ سکے۔ امریکی حکومت اسرائیل کو عالمی سطح پر سیاسی تحفظ دینے کے لیے اقوام متحدہ میں کئی بار ویٹو کرتی ہے۔ یہ تعلق امریکہ کو خطے میں دہشت گردی کے خطرات سے بچانے اور اہم معلومات فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اس کے باوجود، امریکہ کے اندر فلسطینیوں کی انسانی صورت حال پر عوام اور کچھ سیاستدان اس حمایت پر تقسیم نظر آتے ہیں امریکہ کی اس پالیسی کے پیچھے خطے میں اپنی قومی سلامتی اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔
امریکہ کی اسی اسرائیل نواز پالیسی اور اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے خواب کی کوششیں دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے جو کہ کئی عشروں سے امریکہ کا سب سے قریبی دوست رہا اور دونوں کے مابین پیٹرو ڈالر اور بہت سے معاہدے ہیں اس کے باوجود امریکی اور اسرائیلی چالوں کے پیش نظر پاکستان سے ایک وسیع تر دفاعی معاہدہ کیا ہے جس میں بہت سے معاملات شامل ہیں لیکن اس کا سب سے اہم نقظہ یہ ہے کہ سعودی عرب پر کسی بھی ملک کی جانب سےحملہ پاکستان پر حملہ تصور کیا جائے گا اور پاکستان بھرپور جواب دے گا اور اسکی صلاحیت بھی رکھتا ہے