پڑوسی

تحریر۔نظام الدین

قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے کچھ عرصے بعد قائدِ اعظم میموریل فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا یہ فنڈ اُس وقت کے گورنر جنرل آف پاکستان کی اپیل کے جواب میں دیے گئے عوام کے عطیات سے قائم ہوا تھا۔ تاکہ بانی پاکستان کی یادگار کو شاندار طریقے سے تعمیر کیا جاسکے عوام کے یہ عطیات مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی موصول ہوئے تھے، ابتدائی دنوں میں فنڈ کا نظم و نسق ایک کمیٹی کے ذریعے چلایا گیا جو پہلے گورنر جنرل اور بعد ازاں صدرِ پاکستان کی سربراہی میں کام کرتا رہا،
اگرچہ مزار قائد پر تقریر کرنا شروع سے ممنوع تھا مگر جب سیاسی رہنماؤں کو احتجاج کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو مزار قائد پر جا کر آہ ؤ زاری کر لیا کرتے تھے اس سلسلے کو روکنے کے لیے مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل یحیٰی خان نے (پی سی او) کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قائدِ اعظم مزار پروٹیکشن اینڈ مینٹی نینس آرڈنینس 1971 کی شق 5(1) کے تحت قائدِ اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ کے نام سے قائدِ اعظم میموریل فنڈ کی تشکیلِ نوکی جس کی بعد ازاں پارلیمنٹ نے وفاقی وزیر برائے ٹاؤن اینڈ پلاننگ کی سربراہی میں ایکٹ (63 of 1965)کے ذریعے توثیق کردی تب” سے یہ ادارہ قائدِ اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد زلفقار علی بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوگئے 1973 کا آئین منظور ہونے کے بعد ، 1975 میں ویلی ڈینس آف لا ایکٹ منظور کیا گیا تاکہ وہ آرڈیننس جو ناگزیر ہیں ان کی پارلیمنٹ سے توثیق کے بعد انہیں آئیں کا حصہ بنا دیا جائے 26 جون 1976 کو پارلیمنٹ سے مزار قائد پروٹیکشن اینڈ مینٹی نینس آرڈیننس کا ترمیمی بل منظور ہوا ترمیمی بل میں پیپلز پارٹی نے اپنی من پسند تکنیکی نوعیت کی تبدیلیاں کیں جس میں مزار قائد مینجمنٹ بورڈ میں عوامی مفادات کو نظر انداز کرکے سیاسی وابستگی رکھتے والے افراد کو ترجیح دی جانے لگیں
28 دسمبر 1999 کو حکومتِ پاکستان نے قائدِ اعظم مزار پروٹیکشن اینڈ مینٹی نینس آرڈنینس 1971 کی شق 5(1) کے ذریعے حاصل اختیارات کے تحت قائدِ اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ کی تشکیلِ نو کرکے اِسے وفاقی وزیر برائے ماحولیات، مقامی حکومت اور دیہی ترقی کی سربراہی میں دے دیا۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں 30 جون 2011 کو تحلیل کیے جانے تک قائدِ اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ ، وزارت ماحولیات ہی کے تحت رہا۔ جبکہ یکم جولائی 2011 سے 25 اکتوبر مینجمنٹ بورڈ ، وزارتِ صوبائی رابطہ ، کیبنٹ ڈویژن ، حکومتِ پاکستان سے منسلک رہا۔اور پھر قائد اینڈ کلچر ڈویژن، اسلام آباد کے ساتھ منسلک کیا ، منیجمنٹ بورڈ کی نامزدگی وزیراعظم پاکستان کرتے ہیں۔
ماضی میں مزار قائد کی اراضی اور اس سے متصل مشرق کی جانب اراضی پر انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے لاکھوں مہاجرین آباد تھے جنہیں مختلف ادوار میں کراچی کے مختلف علاقوں میں آباد کیا گیا ،1973 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہاں کے مقامی باشندوں کو فلیٹ اسکیم کے تحت فلیٹ دینے کے ثتیار کیے، مگر بدقسمتی سے 5 جولائی 1977 میں ایک بار پھر پاکستان میں ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوگیا، تو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں فلیٹ سسٹم پر پابندی عائد کردی گئی پھر لائینز ایریا سے صوبائی اسمبلی سے منتخب ہونے والے ظہور حسن بھوپالی نے لائینز ایریا ازسرنو آبادکاری کے لئے
“کے ڈی اے” سے اس کے رقبہ حدود کا تعین کرایا”کے ڈی اے” نے”1687٫5ایکڑ رقبہ کا نوٹیفکیشن جاری کیا اس اراضی پر آبادکاری کے لئے ماسٹر پلان آرکیٹیکٹ یاسمین لاری سے تیار کرا کر سندھ اسمبلی سے 1980 میں دستور کی آٹھویں ترمیم ایم ایل 0203 کے تحت تحفظ لائینز ایریا ری ڈویلپمنٹ پروجیکٹ (لاریپ) میں ایک ایگزیکٹو کمیٹی اور با اختیار بورڈ تشکیل دیا ، جس نے 1981 میں باقاعدگی سے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسکیم 35 کے تحت، پانچ سال میں مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی، اس منصوبے کے بورڈ آف گورنرز۔ میں نو ممبران شامل تھے ،
اس پروجیکٹ بورڈ میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ علاقے کی ترقیاتی کاموں میں لائینز ایریا کے مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا ،
مزار قائد مینجمنٹ بورڈ اور لائینز ایریا پروجیکٹ بورڈ ، دونوں بورڈز کے درمیان صرف ایک باؤنڈری وال ہے، جو مزارِ قائد کے احاطے کو لائینز ایریا سے جدا کرتی ہے۔ اس دیوار کے ساتھ ساتھ موجود سڑکیں، پارکنگ ایریاز باغ جناح اور بعض گزرگاہیں ایسی ہیں جہاں دونوں بورڈز کی حدود گڈمڈ ہو جاتیں ہیں ۔ مزار قائد اور لائینز ایریا کے درمیان جو دیوار ہے وہ صرف اینٹ اور سیمنٹ کی نہیں دو نظر یات دو رویوں اور دو مختلف ترجیحات کی دیوار ہے ، اور تاحال ان کے درمیان کوئی مشترکہ میٹنگ، پلاننگ، یا ترقیاتی حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی۔ مزار قائد بورڈ اپنی جگہ شفاف صاف منظم اور ریاستی وقار کا نشان ہے ، تو لائینز ایریا پروجیکٹ کا بورڈ آج بھی سیاسی کھینچا تانی زمینوں پر قبضے اور عوامی اعتماد کے بحران کا شکار ہے
مزار قائد مینجمنٹ بورڈ یحییٰ خان کی مارشل لاء میں بنا جبکہ لائینز ایریا پروجیکٹ کا بورڈ ضیاء الحق مارشل لاء میں دونوں بورڈز مارشل لاء دور میں بنائے گئے، اور سول حکومتوں نے اپنی پسند کی ان دونوں بورڈز میں ترامیم کین جس کی وجہ سے دونوں بورڈز اپنا اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے مثلاً ، ماضی کے مزار قائد میں لائینز ایریا، سولجر بازار جمشید کوارٹرز کے مقامی نوجوانوں کو انتظامی امور میں ملازمت میں ترجیح دی جاتی تھیں مگر اب سیاسی وابستگی رکھنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے ، یہ ہی صورت حال لائینز ایریا پروجیکٹ بورڈ میں ہے ،
اسی طرح لائینز ایریا کا بڑا حصہ مزار قائد سے 3/4 میل یا (2-1کلومیٹر) کے اندر آتا جس کے اندر بلند عمارات ممنوع ہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 میں مزار قائد کے اطراف بڑھتی ہوئی ہائی رائز تعمیرات پر ازخود نوٹس لیا تھا کہ مزار قائد سے 200 میٹر کے دائرے میں کوئی ہائی رائز بلڈنگ نہیں بن سکتی ، اگر اس کے بعد بھی کوئی بناتا ہے تو اس کی زمہ داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور مزار قائد مینجمنٹ بورڈ کی ہے ، سپریم کورٹ کے نوٹس کے باوجود بلند عمارات لائینز ایریا میں موجود ہیں ؟؟؟
اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں بورڈز کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ ہے، تو یہ خاموشی، رابطے کا فقدان اور علیحدگی کیوں ہے؟ کیا کسی فریق کا خوف ہے کہ تعاون سے اختیارات کی حدود متاثر ہوں گی؟ یا یہ صرف ایک بیوروکریٹ کی غفلت ہے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ضلعی انتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور شہری نمائندے ان دونوں بورڈز کے درمیان بامعنی روابط قائم کروائیں۔ اگر بانی پاکستان کا مزار شہری حدود میں ہے تو شہری ترقیاتی منصوبہ بھی اس سے الگ نہیں ہیں ،
راقم الحروف نے رابطے کے اس فقدان کو دور کرنے کے لیے حلقہ لائینز ایریا کے صوبائی ممبر فیصل رفیق کے کوڈینٹر جناب تبشیر الحق تھانوی کے ہمراہ مزار قائد مینجمنٹ بورڈ کے چیف انجینئر جناب عبدل علیم شیخ سے ملاقات کی ، جہاں سے مثبت جواب ملا پھر لائینز ایریا کو ڈیزائن کرنے والی آرکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری صاحبہ سے بھی لائینز ایریا کے حوالے سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی اپنے تعاون کا یقین دلایا ، مگر لائینز ایریا ری ڈویلپمنٹ پراجیکٹ بورڈ کے ممبران سے ملاقات کرنے کے ڈی اے آفس پہنچا تو وہاں کے حالات دیکھ کر افسوس ہوا وہاں کوئی کچھ بتانے کے قابلِ ہی نہیں ؟؟؟

Facebook Comments Box