از قلم: مشاہد حسین
تعلیمی اداروں خاص کر سماجی علوم کے اداروں میں علمی و فکری گفتگو شاذو نادر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اول، اساتذہ کرام سٹوڈنٹس کو علمی و تحقیقی گفتگو کی طرف مائل نہیں کرتے اور کرتے ہیں تو کیا ان کی علمی گفتگو اس قدر اکتاہٹ سے بھرپور ، پھیکی اور بے زار کن ہوتی ہے امانت لکھنوی کے شعر کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے کہ ” زندگی اکتائے گی، خواہش رہے گی دربدر”۔ بس گفتگو کے طریقوں کو دیکھ کر زندگی اکتائے جاتی ہے ۔
لیکن اساتذہ کرام کے ان رویوں اور سوچ سے زیادہ خطرناک المیہ سٹوڈنٹس کی علمی و فکری گفتگو ، سییکھنے اور بڑھوتری کا عمل ہے جوکہ جمود کا شکار ہے ۔ طالب علموں یعنی “علم کے طالبوں ” کی سوچ ” سی جی پی سے ” سے شروع ہوکر ” سی جی پی اے ” (CGPA)پر اٹکی رہتی ہے اور ادارے میں سماجی علوم کی اہمیت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں ۔۔!
طالب علم اس بات بالکل نا آشنا ہیں کہ تعلیم کا بنیادی مقصد معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دینا ہے اور یہ کام خصوصاً سماجی علوم کے ذریعہ کیا جاتا ہے جو کہ سیاسی سماجی اور ثقافتی مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ اور پھر ذہنی طور پر معاشرہ کو باشعور بناتے ہیں تاکہ ان مسائل کو سمجھا جاسکے اور ان پر قابو پایا جاسکے ۔
اگرچہ موجودہ مادیت پرست زمانے میں نمبروں کو اہمیت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت اپنی جگہ مگر اس کی پوری اہمیت اور فوائد سے اس وقت تک کوئی معاشرہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے جب تک کہ سماجی علوم کے ذریعہ معاشرے کو ذہنی طور پر باشعور نہ بنایا جائے ۔محض سائنس اور تکنیک سے معاشرے کو جدید نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔۔۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت سماجی علوم انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیادوں کو نہ تو ہم سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی حل ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ اس وقت جن سماجی مسائل سے دوچار ہے ان مسائل کے حل کا شعور سماجی علوم میں موجود ہے