پاکستان کا زندہ عجائب گھر

تحریر؛ نعمان احمد دہلوی
لاہور، پاکستان کا دل کہلانے والا یہ شہر، صدیوں کی تاریخ، ثقافت اور فن تعمیر کا ایک زندہ عجائب گھر ہے۔ مغلیہ دور سے لے کر برطانوی نوآبادیاتی دور تک، اس شہر نے متعدد سلطنتوں کی شان و شوکت دیکھی ہے۔ لاہور کے تاریخی مقامات نہ صرف پاکستان کی قومی شناخت کا حصہ ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ تاہم، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی، آلودگی، غیر قانونی تعمیرات اور قدرتی آفات جیسے عوامل ان مقامات کو شدید خطرات کا سامنا کرا رہے ہیں۔
لاہور کی تاریخی اہمیت کا آغاز قدیم زمانوں سے ہوتا ہے، لیکن مغلیہ سلاطین نے اسے اپنی شان کا مرکز بنایا۔ لاہور کا قلعہ، بادشاہی مسجد، شالامار باغ اور والڈ سٹی آف لاہور جیسے مقامات یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہیں۔ لاہور قلعہ، جو مغل بادشاہ اکبر نے 1580 میں تعمیر کروایا، 21 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں دیوان عام، دیوان خاص، شیش محل اور موتی مسجد جیسی عمارتیں شامل ہیں۔ بادشاہی مسجد، دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک، 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے بنوائی۔ شالامار باغ، شاہ جہاں کا شاہکار، 1641 میں مکمل ہوا اور اس کے چشمے اور باغات مغلیہ فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ، داتا دربار، حضرت علی ہجویری کا مزار، ٹومب آف جہانگیر، نور جہاں کا مقبرہ اور انارکلی بازار جیسے مقامات بھی لاہور کی ثقافتی دولت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ مقامات نہ صرف سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کی شناخت اور فخر کا باعث بھی ہیں۔
تاہم، ان تاریخی مقامات کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ شہری پھیلاؤ کی وجہ سے غیر قانونی تعمیرات اور انکروچمنٹ نے والڈ سٹی کو شدید متاثر کیا ہے۔ آلودگی، خاص طور پر فضائی اور پانی کی آلودگی، پتھروں اور فن تعمیر کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے بھی خطرات بڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سیاحت کی بڑھتی ہوئی تعداد سے مقامات پر دباؤ بڑھ رہا ہے، جبکہ فنڈز کی کمی اور انتظامی مسائل حفاظت کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، لاہور قلعہ کی کئی عمارتیں وقت کے ساتھ خستہ حال ہو چکی ہیں، اور شالامار باغ کے چشمے آلودگی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے، اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ ورثہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت اور بین الاقوامی اداروں نے ان مقامات کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ 1975 کا آثار قدیمہ ایکٹ پاکستان میں ثقافتی ورثے کی حفاظت کا بنیادی قانون ہے، جو تاریخی مقامات کی حفاظت، بحالی اور غیر قانونی تجارت کو روکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی (ڈبلیو سی ایل اے) قائم کی، جو والڈ سٹی کی بحالی اور حفاظت پر کام کر رہی ہے۔ اس اتھارٹی نے شاہی حمام، دہلی گیٹ اور دیگر مقامات کی بحالی کی ہے، اور اب یہ مقامات سیاحوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ 2017 میں، پنجاب حکومت نے لاہور قلعہ کی بحالی کے لیے 9 ملین ڈالر کی منظوری دی۔ حال ہی میں، مارچ 2025 میں، لاہور کے تاریخی ورثے کی بحالی اور تحفظ کے لیے ایک نئی اتھارٹی قائم کی گئی، اس اتھارٹی کا مقصد 115 تاریخی عمارتوں اور 75 کالونیل دور کی عمارتوں کی حفاظت ہے۔ اپریل 2025 میں، پنجاب حکومت نے سرکلر روڈ پر 7000 دکانوں کو گرانے کا آغاز کیا تاکہ تاریخی علاقوں کو آزاد کیا جا سکے۔
بین الاقوامی سطح پر، یونیسکو، آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) اور امریکہ کی حکومت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یونیسکو نے لاہور قلعہ اور شالامار باغ کو 1981 میں عالمی ورثے کا درجہ دیا۔ اے کے ڈی این نے والڈ سٹی کی بحالی میں مدد کی، جبکہ امریکہ نے 2001 سے اب تک پاکستان میں 35 ثقافتی پروجیکٹس کے لیے 8.4 ملین ڈالر سے زیادہ فراہم کیے، جن میں لاہور قلعہ کا عالمگیر گیٹ اور شالامار باغ شامل ہیں۔ اگست 2025 میں، امریکی قونصلیٹ نے پنجاب کے تاریخی مقامات کی حفاظت کی دوبارہ توثیق کی۔ یہ کوششیں نہ صرف بحالی بلکہ سیاحت کو فروغ دے کر معاشی فوائد بھی لا رہی ہیں۔
جہاں بحالی کے کاموں کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، شاہی حمام کی بحالی کے بعد اب یہاں ہفتہ وار دورے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ بھی فعال ہے، جیسا کہ کوہ نور ٹی وی کے پروگرام میں ڈائریکٹر محمد حسن نے علی مردان خان کے مقبرے جیسی جگہوں کی حفاظت پر بات کی۔
ان کوششوں کے باوجود، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مقامی کمیونٹی کی شمولیت، تعلیم اور آگاہی مہمات ضروری ہیں۔ حکومت کو فنڈز بڑھانے، قوانین کو سخت کرنے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جیسے کہ تاریخی مقامات پر صفائی کا خیال رکھنا اور غیر قانونی تعمیرات کی اطلاع دینا۔
آخر میں، لاہور کا تاریخی ورثہ ہماری قومی دولت ہے۔ اس کی حفاظت نہ صرف ماضی کو محفوظ رکھنے بلکہ مستقبل کی نسلوں کو ایک امیر ثقافتی میراث دینے کا معاملہ ہے۔ اگر ہم سب مل کر کام کریں تو لاہور کی یہ شان دار عمارتیں صدیوں تک قائم رہیں گی۔ اللہ پاک ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین،

Facebook Comments Box