غریبوں سے ہمدردی یا دشمنی

پاکستان کی بیوروکریسی جوانتہائی اعلیٰ اشرافیہ پرمشتمل ہوتی ہے،اورپھران میں سے اکثرصرف پاکستانی نژاد ہی ہوتے ہیں،شہریت ان میں سے اکثرکے پاس یورپی یا امریکی ہی ہوتی ہے۔اوربعض دفعہ ان پاکستانی نژاد یورپی وامریکی شہریوں کوجوعالمی اداروں میں بینکنگ یا مینجمنٹ پرمامورہوتے ہیں، ان کوہمارے ملک کے ہمدردِ عوام اشرافیہ سیاست دان یاادارے بڑی منت و سماجت اورعالمی معیارسے زیادہ تنخواہ اورمراعات پیش کرکے ڈیپوٹیشن پراس ملک میں بطوروزیرِ اعظم یا وزیرِ خزانہ یاکسی بھی ترقیاتی ادارے کا سربراہ بنالیتے ہیں،چونکہ ہمارے ذہن میں ہے کہ یہ جوانگریز ہیں،یہ اللہ کے فرشتوں کے بعد انسانوں کے لیے سب سے زیادہ خیرخواہ ہیں،لہذاجس کوانہوں نے اپنے اداروں میں سربراہی دی ہوئی ہے اورپھروہ خوش قسمتی سے مسلمان اورپاکستانی نژادبھی ہے،لہذااس کی جس طرح سے بھی ہومنت خوشامد کرکے پاکستان لانا چاہیے کہ پاکستان کے عوام کے دن بھی پھرجائیں،چونکہ یہی لوگ جو ہیں انہوں نے ہی یورپ وامریکہ کوترقی کی راہ پرچلایا ہوا ہے،اوریہ ترقی کا گن انہیں ہی آتا ہے۔اسی نظریے کے تحت ایک بار معین قریشی صاحب کو پاکستان کا نگران وزیرِ اعظم بنایا گیا، پھرشوکت عزیز صاحب کوپاکستان کا مستقل وزیرِاعظم بنایا گیا،اورپھر جناب حفیظ شیخ صاحب کووزیرِ خزانہ بنایاگیا،اس وقت تک پاکستان میں بجلی کی پریونٹ قیمت ایک سے ایک ہزارتک ایک ہی تھی، بلکہ دوچارسوکے اوپرجانے کے بعدعالمی طرزپرقیمت کم ہوجاتی تھی،محترم نے ایک ایسافارمولہ بنایا کہ بجلی کی قیمت پرجو عوام کو سب سڈی دی جاتی ہے۔ورنہ پاکستان میں یہ تین چار روپے پریونٹ بننے والی بجلی آئی پی پی اورپتا نہیں کن کن دروازوں سے گزرتی اورہرجگہ اپنی پیدائش کی خوشی میں بدھائیاں دیتی پینتیس سینتیس روپے پریونٹ ہوجاتی ہے، پھرحکومت کو قومی خزانے سے عوام پردان کرناپڑتا ہے جسے سب سڈی کہتے ہیں،اوراس کے بعد سات آٹھ روپے پریونٹ عوام کودی جاتی ہے۔شیخ صاحب یاکوئی اوربھی غریب پرورلوگ ہوے ہوں گے انہوں نے فیصلہ کیا کہ غریب کوسب سڈی دی جائے لیکن امیروں کوتونہ دی جائے نا۔لہذابجلی سلیب ریٹ پر غریبوں کے لیے کم قیمت دی جائے، اب غربت کی مقدار کیا ہوگی وہ ایک امیرنے سوچا یہی کوئی سودوسویونٹ کیونکہ غریب نے نہ پنکھاچلانا ہے، نہ موٹر،نہ اے سی،اورنہ ہی چالیس لائٹیں کے غریب کے تودوکمروں کا گھرہوتا ہے، اس میں دوبلب اورشایدایک پنکھا وہ بھی شاید نہ ہی ہو،بجلی کا کنکشن توغریب صرف اپنی پاکستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے لگواتا ہے،ورنہ شاید وہ بھی نہ لگوائے۔لہذا 2009میں فیصلہ ہوگیاکہ کم یونٹ جلانے پر کم قیمت یونٹ ہوگااس کے بعد2013میں دوسو یونٹ پرکم ریٹ اور اگر 201یونٹ ہوجائے توسب پرمہنگاریٹ لگے گا۔ پھر2019میں سلیب ریٹ 700,300,200,100،کی الگ الگ قیمت لگائی گئی۔کچھ عرصہ سو اوردو سو یونٹ کے علیحدہ ریٹ لگائے جاتے رہے، سو کے اوپروالے یونٹ کواوپروالا ریٹ لگایا جاتا،لیکن جب کام چل گیا توپچھلے کچھ عرصہ سے ایک نیا فارمولہ نکال لیا گیا کہ اگرکسی غریب کا بل ایک دفعہ دوسویونٹ سے اوپر ہوگیا اس کے بعدوہ اگرپچاس یونٹ ہی صرف کرے توبھی اسے چھ مہینے تک دوسوسے اوپریونٹ کا بل دیا جائے گا،کیونکہ غریب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسویونٹ سے اوپرکبھی بھی بجلی نہ جلائے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ جوشخصیت پرستی کے علاوہ اورکچھ نہیں جانتی وہ اپنے اپنے سیاسی بتوں کو پوجھتے ہوے کسی عوام کش کارکردگی کوبھی اپنے چیلے چانٹوں کی مددسے غریب پروری اورعوام دوستی بنا کرپیش کرتی ہے، اورپھراوپر سے اس زمانے کا بے لگام میڈیااس کے ہوتے ہوے کوئی غریب مرتے ہوے تڑپ رہا ہوتو بھی اسے دکھایا جاتا ہے کہ دیکھویہ کس قدرخوش ہے کہ دھمال ڈال رہا ہے۔میڈیا پرسن جوبھی ہیں وہ اپنے مشاہدات یاآنکھوں دیکھے حالات بیان نہیں کررہے ہوتے جوان کوحکومت یااپوزیشن یا ادارے مال یا حکم دے کرکہناچاہیں وہ ا سی کواپنی شاطر عقل وزبان سے قصے کہانیاں جوڑکرعوام میں اس قدرپھیلاتے ہیں کہ لوگ اپنے دکھ دردبھول کرپھر اپنے قصائیوں کے گن گانے لگتے ہیں،بقولِ غالب ”نہ لٹتا دن کوتوکب رات کویوں بے خبرسوتا،رہاکھٹکا نہ چوری کادعادیتا ہوں راہزن کو“۔اب سختی سے غریب پروری یہ کی جانے لگی ہے کہ دوسویونٹ سے اوپر اگرایک یونٹ ہوجائے توبل تین گنا بڑھ جاتا ہے،اوریہ فارمولہ2013 کے سلیب ریٹ کاہی ہے،جس کوبیوروکریٹوں نے اب سختی سے نافذ کردیا ہے،جس سے غریب تڑپ اٹھے ہیں۔ اور شایدیہ بیورو کریسی اورمحکموں کے سربراہو کی ذاتی اختیاری،قومی اورملکی خدمت ہے جس کے ذریعے وہ سیاسی حکمرانوں کو یہ دکھاناچاہتے ہیں کہ مالی اہداف اس طرح کے بے ضرر کاموں سے پورے ہوجائیں گے،لہذا خالصتاً ملکی اورقومی مفادمیں اورآپ کی نیک نامی کے لیے ہم یہ کام کررہے ہیں۔اور ہماری یہ سیاسی اشراٖفیہ جومال ودولت،جاگیرداری،اورداداگیری،اورعالمی پشت پناہی سے عوام پر مسلط ہوتی ہے۔،وہ اپنے ان افسروں کو اورمراعات دے کرعوام کالانعام جو بے زبان اوربے شعور ہے اس کی بدعائیں لینے لگ جاتے ہیں،اورسال دوسال کے بعدجب عوام کی فریادوں نے عرشِ الٰہی کوتھرادیا تویہی بیورو کریسی جوصدقے واری ہورہی ہے، حکمرانوں کاصدقہ کردے گی،”کہ جابچہ راوی ناکوئی آوی ناجاوی“۔لہذاحکومت سے گزارش ہے کہ وہ 2019 والاسلیب فارمولہ چلائیں یاسلیب سسٹم کوختم کردیں۔ جب تک کوئی سیاسی حکمران اپنے ماتحت افسروں کی مشاورت پرچلتارہے گااورمحکموں کوبے مہارچھوڑے رکھے گااس وقت تک ملک میں استحکام آئے گا نہ ترقی ہوگی،عوام کے معاملات عوام سے پوچھے جائیں نہ کہ عالمی استعماری دانشمندوں پرچھوڑدیں،ورنہ نہ ایٹم بم کام آئے گاناترقی کے کام۔چونکہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا،”غلامی میں کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں،جوہوذوقِ یقیں پیداتوکٹ جاتی ہیں زنجیریں‘‘ اللہ تعالی ٰاس ملک اورقوم پررحم فرمائے اورحکمرانوں کوتوفیق دے کہ وہ عوام کے لیے آسانیاں پیداکریں۔آمین وماعلی الاالبلاغ۔

Facebook Comments Box