” صرف گولی مارنے کی اجازت ہے “

دائرے ۔۔۔۔۔ اوصاف شیخ
   ” صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ” یہ ایک جملہ ایک مکمل تاریخ بن گیا ، نام نہاد مردانگی اور نام نہاد غیرت کے منہ پر ایک بظاہر کمزور مگر ان قاتل مردوں سے مضبوط لڑکی کی جانب سے زور دار تھپڑ ۔۔۔۔۔ یہ جملہ بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی شیتل نے پسند کی شادی کے جرم میں خود گولی مارنے والے مردوں سے کہا اور بنا کسی لرزش ، بنا کسی گھبراہٹ کے گولیاں مارنے والوں کے سامنے کھڑی ہوگئی ، نہ اس نے فریاد کی ، نہ کسی کے پاؤں پڑی ، نہ اس کے قدم لڑکھڑائے نہ وہ بے ہوش ہو کر گری 
بلوچستان میں ایک لڑکی اور لڑکے کو گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کرنے  پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا ۔۔۔۔۔ بظاہر یہ ایک اہم ، دکھ بھری خبر ہے ، لیکن یہ ایک خبر نہیں ایک مکمل تاریخی سانحہ ہے کیونکہ یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ پہلے بھی اس طرح کے انگنت واقعات ہوئے  اس کیس میں لڑکی کے گھر والوں نے عید الاضحی’ پر اپنی لڑکی اور اس کے شوہر زرک کو کھانے کے بہانے بلایا اور اپنے قبیلے کے چند افراد کے مشورہ پر جو پہلے سے ہی کر لیا گیا تھا اپنی بیٹی شیتل اور اس کے شوہر زرک کو گھر سے دور لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا ۔۔۔۔۔ قصور یہ تھا کہ اس لڑکی نے اپنی پسند سے شادی کر لی تھی ۔ پسند کی شادی جو گھر سے بھاگ کی کی جائے تب ہوتی ہے جب گھر والوں کی مرضی کے امکانات صفر ہوں ،     گو یہ کسی جرگہ یا پنچایت کا فیصلہ نہیں تھا لیکن لڑکی کے گھر والوں نے اپنے رشتے داروں کے مشورہ سے ہی ایسا کیا اسی لیئے تو قتل گاہ میں پندرہ سے زائد افراد تھے ، پانچ کے پاس رائفلز تھیں وہ سب لڑکی کے بھائی تو نہیں تھے تو اس کا مطلب ہے برادری یا رشتہ داروں میں ہی جرگہ جیسا فیصلہ کر لیا گیا ہوگا اور ایک جاہلانہ فیصلہ سے دو زندگیوں کے چراغ گل کر دیئے گئے۔۔۔۔۔
یہ کوئی پہلی بار تو ایسا ہوا نہیں اس قسم کے جاہلانہ فیصلوں سے بہت سی زندگیوں کے چراغ گل کیئے جا چکے ہیں نوجوان اور کم عمر لڑکیوں کو جرگوں ، پنچائتوں اور برادری کے فیصلوں پر قتل کیا جا چکا ہے اور ایسے فیصلوں میں بھی برادری اور رشتہ داروں کے طعنے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ شیتل کے کیس میں دیکھ لیں اس کی برادری اور رشتہ داروں کے پندرہ سے زائد افراد قتل گاہ میں موجود تھے ظاہر ہے سب اس نام نہاد غیرت کے مظاہرہ پر راضی تھے
یہ کوئی تماشہ واقعہ نہیں ہے اس کی وڈیو اب وائرل ہوئی ہے ، شنید ہے کہ یہ عید الاضحی’ کا واقعی ہے اور یہ بات بھی اہم ہے کہ وڈیو بنائی بھی وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے ہوگی اور ظاہر ہے کہ وائرل بھی وہاں سے ہی ہو سکتی ہے ۔۔۔ یہ واقعہ عید کا ہے یا اس سے قبل کا تو دنیا کو علم ہو رہا ہے اس وڈیو کے وائرل ہونے سے۔۔۔ کیا اس علاقہ میں قانون نہیں ، قانونی ادارے نہیں ، پولیش اسٹیشن ہوگا ، چاہے دور ہی ہوگا لیکن ایک اتنے اہم سانحہ کی خبر کسی نہ کسی طور پولیس اور انتظامیہ تک نہ پہنچی ہو یہ ممکن ہی نہیں ، یہ کام سر عام ہوا ہے ، نو گولیاں لڑکی کو ماری گئیں اور اس سے دو گنا لڑکے کو ماری گئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ پولیس اور انتظامیہ سے یہ واقعہ پوشیدہ ہو ۔۔۔ نا ممکن ۔۔۔۔
یہ واقعہ ، یہ سانحہ ایک تسلسل ہے جاہلانہ روایات کا ، ہر بار ایسے واقعات کے بعد سخت ایکشن لینے کے دعوے کیئے گئے ، شاید چند مرتبہ قانون اور ریاست نے کچھ ایکشن لیا بھی ہو لیکن ایسا سخت ایکشن  ایسا کوئی فیصلہ کبھی نہیں کیا گیا  جس سے اس طرح کے واقعات اور سانحات کی روک تھام ہو سکے
حکومتوں اور اداروں کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ قانون اور سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ جرگہ اور پنچایت سسٹم بھی فعال ہو اور مقامی سطع پر مسائل کا خاتمہ ہو سکے اور پولیس ، اداروں اور عدلیہ پر بوجھ کو کم کیا جا سکے اور عوام کو قانون کے لمبے چکروں سے بچایا جا سکے
لیکن یہ واقعہ کسی جرگے ، کسی پنچایت کے فیصلہ کے تحت نہیں بھی رونما ہوا تو علاقہ کے بڑے جو عموما” جرگوں اور پنچایتوں میں شامل ہوتے ہیں ان تک بھی خبر نہ پہنچی ہو یہ بھی ممکن نہیں ،،،،، 
خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ وزیر اعلی’ بلوچستان کے سخت احکامات کے بعد تفتیش شروع ہو چکی ہے ، وڈیو کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے ذمہ داروں کے بارے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سر عام دو لوگوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہو اور پولیس بے خبر ، علاقہ کے لوگ بے خبر ۔۔۔ نا ممکن ۔۔۔۔ سب سے پہلے متعلقہ پولیس سے ہی پوچھ گچھ کر لی  جائے
پھر یہ دیکھنا ہے کہ  فیصلہ کرنے والے کون ہیں یہ دیکھنا بہت اہم ہے اور پھر دوسرا یہ کہ جو بغیر کسی اجازت کے جرگے  اور پنچایتوں بنا کر بیٹھے ہیں اور بلوچستان کے حالیہ فیصلہ کی طرح کے فیصلے کرتے ہیں ان کا خاتمہ ضروری ہے ، وہ جنگل کا قانون چلا رہے ہیں ایک خطا کہ مرضی کی شادی کر لی تو برادری اور رشتہ داروں اور خود لڑکی کے ماں باپ اور بھائیوں نے دونوں کی موت کا حکم صادر کر دیا اور فوری طور پر اس پر عمل بھی کیا گیا ۔ اس میں ایک دو لوگ شامل نہیں ہیں ، یہ سازش تیار کرنے والے اور سازش تیار کرنے کے بعد لڑکی اور لڑکے کو کھانے کے بہانے گھر بلانے والے ،  قتل پر اکسانے اور مجبور کرنے والے ، اس کیس کی آڑ میں اپنا انتقام لینے کے لیئے شامل ہونے والے  ،  وہ لوگ جو گاڑیوں میں لڑکی اور لڑکے کو جائے قتل پر لے کر آئے ، وہاں جس نے یا جنہوں نے فائرنگ کی اور جو اس قتل ، اس فائرنگ میں راضی ہو کر شریک ہوئے سب مجرم ہیں ، وڈیو وائرل ہونے سے ہی اس سانحہ کا علم انتظامیہ کو ہوا ، بڑا جدید دور ہے ، وڈیو وائرل کرنے والے کو ہی ڈھونڈ لیا جائے تو بہت کچھ مل سکتا ہے ، سنا ہے ایک بندہ گرفتار ہوچکا ہے ، وڈیو سے دیگر کو پہچاننے کی کوشش جاری ہے
وزیر اعلی’ بلوچستان جو خود بلوچ ہیں ، پڑھے لکھے ہیں اور ان کے بچے بھی انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور واقعہ کے دنوں میں بھی شاید وہ اپنے بچوں کے پاس چھٹیاں گزار رہے تھے ان کے اپنے قبیلے میں بھی جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں یہ ان کے لیئے ٹیسٹ کیس ہے ، انہوں نے ایکشن لیا ہے جو ہر سربراہ حکومت ، ہر ادارہ کا سربراہ ہمیشہ لیتا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کیس میں اس دور میں اکیسویں صدی میں ، انسانی حقوق کے علم برداروں کے دور میں ، خواتین کے حقوق کے نعرے لگانے والوں کے دور میں اس کیس کا کیا بنتا ہے ، اس دور کو ، اس واقعہ اور اس جیسے واقعات کو دیکھ کر تو معاذ الله لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے والا دور یاد آتا ہے یہ تو اس سے بھی برا لگ رہا ہے نو زائیدہ بچیوں کے تو خواب بھی نہیں ہوتے تھے جو انہوں نے دیکھے ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔
پڑھے لکھے بلوچ وزیر اعلی’ بلوچستان ، حکومت پاکستان ، پولیس اور سب سے  بڑھ کر عدلیہ کے لیئے یہ اہم ٹیسٹ کیس ہے ، بغیر وقت ضائع کیئے سب ذمہ داروں کے خلاف کار روائی ضروری ہے سب ذمہ داروں کا بار بار اس لیئے لکھا میں نے کہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس میں زیادہ لوگ شامل ہیں اور جان کے  بدلے جان ہی اس کیس کا فوری انجام ہو سکتا ہے ۔ مقتولہ اور مقتول کی جانب سے اس کا کوئی مدعی نہیں ، یہ دہشت گردی بھی تو ہے تو اس حوالے سے تو ریاست اسکی مدعی ہونا چاہئے ، اس کیس کو الجھا کر ، وقت کے سرد خانے میں ڈال کر ذمہ داروں کو بچانے کی کوشش عذاب الہی” کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا

Facebook Comments Box