ایران جنگ سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے؟

تحریر۔سید مجاہد علی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایران و اسرائیل جنگ بندی کے بعد امریکہ اگلے ہفتے کے دوران ایران سے بات چیت کرے گا۔ گو نئے مذاکرات کا ایجنڈا واضح نہیں ہے۔ تاہم قیاس کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ، ایران کو کسی ایسے معاہدے پر راضی کرنا چاہے گا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام سے دست بردار ہو جائے۔ بظاہر یہ مقصد حاصل کرنا جتنا آسان ہے، اسے حاصل کرنا شاید اتنا سہل نہ ہو۔

جنگ کے بعد ایرانی عوام اور قیادت پر یہ واضح ہوا ہے کہ اگر اس کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو شاید اسرائیل و امریکہ کو اس پر حملہ کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ ناقص ائر ڈیفنس اور جوہری ہتھیاروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایران ایک لاچار اور کمزور نشانہ تھا جس پر بمباری کا آغاز کر کے وہاں حکومت تبدیل کرنے اور مرضی کی شرائط مسلط کرنے کی باتیں کی گئیں۔ آج ایران کی بہادری و عظمت کے گن گانے والے صدر ٹرمپ ایک مرحلے پر تو ایران سے غیر مشروط شکست تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یا دھمکی دی گئی تھی کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خانہ ای ان کے رحم و کرم پر ہیں اور جب چاہیں انہیں ہلاک کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ اب ٹرمپ اعتراف کر رہے ہیں کہ بارہ روزہ جنگ کے آخری چند روز اسرائیل کے لیے مشکل تھے۔ اس ایک فقرے سے متعدد مطالب نکالے جا سکتے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ امریکہ نے اسی وقت جنگ بندی کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی جب اسرائیل کے لیے اسے طول دینا مشکل ہونے لگا تھا۔ اسرائیل اپنی سرزمین پر شہریوں کی ہلاکت اور اثاثوں کی تباہ کاری کا طویل عرصہ تک متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اگرچہ جنگ میں اس نے ابتدا سے ہی برتری حاصل کی اور ایران کے اندر اپنے جاسوسی و عسکری نیٹ ورک کے ذریعے متعدد جرنیلوں اور نیوکلیئر سائنسدانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد ایران کی فضا اسرائیلی طیاروں کے لئے آزاد تھی اور وہ کسی مزاحمت کے بغیر جہاں چاہے بمباری کرتے رہے تھے۔ ان حملوں میں جوہری تنصیبات کے علاوہ ایران کے انفرا اسٹرکچر اور دیگر سہولتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ایران کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔

اب جنگ بند ہو چکی ہے اور ٹرمپ کو ایران کے ساتھ کسی ایسے معاہدے کی امید ہے جس کے تحت ان کے خیال میں ایران جوہری پروگرام سے دست بردار ہو جائے گا۔ عقلی لحاظ سے ایرانی حکومت کے لیے یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہو گا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ پابندیاں ختم کر سکتا ہے اور ایران دیگر ممالک کے طرح عالمی تجارت اور لین دین کا حصہ بن سکتا ہے۔ تاہم سیاسی طور سے ایسے کسی معاہدے کو ایران کی عملی شکست مانا جائے گا۔ دنیا کے لوگ تو اسے ایک ہوشمندانہ فیصلہ مان کر خوش ہوں گے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک تنازعہ حل ہونے کے بعد شاید اس خطے میں طویل المدت امن کا راستہ ہموار ہو سکے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایران اتنی آسانی سے اپنے اعلان شدہ موقف کہ وہ خود مختار ملک کے طور پر، پر امن مقاصد کے لیے یورینیم افزودہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سے دست بردار ہو گیا تو شاید عوام میں موجودہ حکومت کی ساکھ اور اعتبار شدید مجروح ہو۔

یہ تو درست ہے کہ ایران کی مذہبی قیادت نے 1979 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک پر جبر استبداد کے ہتھکنڈوں سے حکومت کی ہے۔ مخالفین کی آواز دبائی گئی ہے اور سیاسی مخالفت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لوگوں کے دیگر شہری حقوق بھی محدود ہیں۔ ملک میں خوف کا ماحول ہے اور ماضی میں حکومت سختی سے کسی بھی احتجاج یا تبدیلی کی خواہش کو کچلتی رہی ہے۔ البتہ موجودہ نظم حکومت چلانے والوں نے تیل و گیس کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود جوہری توانائی حاصل کرنے کے لیے اربوں ڈالر صرف کیے اور امریکہ سمیت دنیا کی مخالفت مول لی۔ اب اسی معاملہ پر ایک شدید اور تباہ کن جنگ کا سامنا کرنے کے بعد اگر حکومت اس منصوبے کو مکمل طور سے ترک کرنے پر راضی ہوجاتی ہے تو یہ فیصلہ ایران کے وسیع تر مفاد میں ہونے کے باوجود موجودہ حکومت اور سیاسی انتظام کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ جو کام اسرائیلی بمباری کی وجہ سے ممکن نہیں ہوا، وہ مذہبی قیادت میں جوہری صلاحیت کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلاف کی وجہ سے ممکن ہو جائے اور موجودہ حکومت خود اندرونی اختلافات کا بوجھ برداشت نہ کرپائے۔

اسی لیے دیکھا جاسکتا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ نے آج ہی انٹرنیشنل اٹامک انرجی سے تمام تعاون ختم کرنے کی قرارداد متفقہ طور سے منظور کی ہے۔ عملی طور سے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ آئی اے ای اے کے ماہرین ایران آ کر نہ تو اس کی جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے سکیں گے اور نہ ہی انہیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ ایران جوہری پروگرام پر مستقبل میں کیا پیش رفت کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ اب قانون سازی کی نگران کونسل کی منظوری کے لیے پیش ہو گا۔ اگرچہ کسی فیصلے پر سپریم لیڈر کی حتمی منظوری کے بغیر عمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ہی ایران میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ کیا ایران کو جوہری ہتھیاروں کے انسداد کے عالمی معاہدے این پی ٹی سے الگ ہوجانا چاہیے۔ ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا مقصد یہ اعلان ہو گا کہ اب ایران کسی نگرانی اور پابندی کے بغیر جوہری ہتھیار بنانے کی دوڑ میں شامل ہے۔ ایسے فیصلے جنگ کے بعد پیدا ہونے والے منظر نامہ میں ایران کے مستقبل کے بارے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہوں گے۔

ایرانی جوہری صلاحیت کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس کی روشنی میں تو امریکہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کا کوئی موقع دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس اختلاف سے ایران کے لیے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ہیگ میں نیٹو کانفرنس کے دوران پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایران اگر پھر جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ پھر سے ایران پر حملہ کر کے اسے تباہ کردے گا۔ مبصرین کا یہ بھی قیاس ہے کہ اسرائیل نے اب ایران پر حملہ کرنے کی ریڈ لائن عبور کرلی ہے۔ اس لئے مستقبل میں جوہری پروگرام کے سلسلہ میں ایران کی معمولی بے اعتدالی پر اسرائیل پھر سے ایران پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ان تبصروں میں اس پہلو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملوں کی بھاری قیمت اپنے شہریوں کی ہلاکت اور خوف کی صورت میں ادا کی ہے۔ وہ ایک بار پھر کوئی ایسی جنگ شروع کرنے سے گریز کرے گا جسے وہ مکمل طور سے جیت نہ سکے اور جس کے دوران اس کے اپنے لوگ سو فیصد محفوظ نہ رہ سکیں۔

اس موضوع پر غور کرتے ہوئے البتہ اس پہلو کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ امریکہ و اسرائیل صرف ایران کے جوہری پروگرام کو ہی بہت بڑا خطرہ کیوں سمجھتے ہیں۔ اسی مدت میں شمالی کوریا نے جوہری صلاحیت اور دور فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کیے ہیں لیکن شور مچانے کے باوجود اس پر حملہ کرنے یا اسے کسی ایسے معاہدے پر مجبور نہیں کیا جا سکا کہ وہ اپنا جوہری پروگرام ترک کردے۔ یہ تو ضرور ہے کہ مغربی دنیا نے شمالی کوریا کا معاشی بائیکاٹ کیا ہوا ہے لیکن کم جونگ ان کی حکومت نے اس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ البتہ ایران کا معاملہ مختلف رہا ہے۔ امریکہ شروع سے ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ بالآخر یہ تنازعہ اس ماہ ہونے والی جنگ کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے آ گیا۔ ایران کے بارے میں امریکہ کے اس سخت گیر رویہ کا جائزہ لینے سے دیگر ممالک بھی سبق سیکھ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں اگر کسی سپر پاور کا سامنا کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے دباؤ یا عتاب سے بچنے کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے۔

ایران کی موجودہ مذہبی حکومت نے سابق حکمران رضا شاہ پہلوی کی اسرائیل دوستی کی پالیسی تبدیل کردی تھی۔ اس کی بجائے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اسے ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ دنیا کے متعدد ممالک اسرائیل کے قیام کو ناجائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے کبھی اسے تسلیم نہیں کیا لیکن کسی ملک نے اسرائیل کو ختم کرنے کی پالیسی سرکاری طور سے اختیار نہیں کی بلکہ فلسطینیوں کے حق کے لیے عالمی سفارت کاری کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس ایرانی حکومت نے نہ صرف اسرائیل مخالف پالیسی اختیار کی بلکہ پورے مشرق وسطی میں ہم خیال و ہم عقیدہ گروہوں کے ذریعے پراکسی جنگ کے حالات پیدا کیے۔ ان میں خاص طور سے لبنان کا حزب اللہ، یمن کا حوثی گروہ اور غزہ میں حماس قابل ذکر ہیں۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت بھی خطے میں ایران کی پراکسی کے طور پر کام کرتی رہی تھی۔ اس حکمت عملی کو ایرانی انقلاب برآمد کرنے کی پالیسی سمجھا جاتا رہا۔ کئی دہائیوں تک ان گروہوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا۔ یوں لگنے لگا تھا کہ ایران ان گروہوں کے ذریعے اسرائیل کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ موقع ملنے پر عرب ممالک میں بھی ہم خیال گروہوں کے ذریعے ویسی ہی تبدیلی لائے گا جیسا کہ حوثیوں کے ذریعے یمن میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا گیا۔

مستقبل میں ان گروہوں کے ساتھ ایران کا تعلق اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے حالات بھی ایران کے مستقبل کا تعین کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ ایران اگر مذہبی بنیادوں پر عسکری انتہاپسندی پھیلانے پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے فلسطینیوں کی سیاسی و سفارتی امداد کا راستہ اختیار کرتا تو شاید اقوام عالم میں اسے بہتر شنوائی حاصل ہو سکتی۔ اور ممکنہ طور پر اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں بھی ایسی بے چینی محسوس نہ کی جاتی کہ اسرائیل اور امریکہ باقاعدہ حملوں کے ذریعے اسے ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

ایران جنگ ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے کہ دنیا میں باعزت قوم کے طور پر زندہ رہنے کے لیے بقائے باہمی کے علاوہ ایک دوسرے کے احترام کو ماننا چاہیے۔ مذہبی نظریات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ اپنے عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ استوار کیا جائے اور انہیں بنیادی جمہوری و انسانی حقوق دیے جائیں۔ ان اصولوں کو ماننے اور ان پر عمل کرنے والا کوئی ملک ایران جیسی مشکل سے دوچار نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ کسی کو مٹانے اور ختم کرنے کی بجائے، سب کے زندہ رہنے اور سب کی آزادی کی بات کرے گا۔

Courtesy Humsub

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *