ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد

تحریر۔عثمان غنی
ایران اور اسرائیل کے درمیان 24 جون 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد تہران میں حالات پیچیدہ اور کشیدہ رہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، جنگ بندی کے باوجود تہران کے شہری خوف اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ شہر میں زندگی بظاہر معمول پر آ رہی ہے، لیکن اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے جوہری تنصیبات پر حملوں نے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
تہران کے شہریوں میں جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کا خوف پایا جاتا ہے۔ طلقانی جنرل ہسپتال کی ہیڈ نرس اشرف بارغی نے بی بی سی کو بتایا کہ ”ہمیں یقین نہیں کہ یہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔” اسرائیل کی جانب سے 23 جون کو اوین جیل پر حملے کے بعد زخمیوں کی بڑی تعداد ہسپتالوں میں لائی گئی، جن میں فوجی اہلکار اور عام شہری شامل تھے۔ اشرف نے کہا کہ انہوں نے اپنے 32 سالہ کیریئر میں اتنے گہرے زخم نہیں دیکھے تھے۔
تہران کے کیفے اور بازاروں میں لوگ موجود ہیں، لیکن ماحول میں بے چینی ہے۔ ایک کیفے میں بی بی سی کے نامہ نگار نے دیکھا کہ صرف چند میزوں پر لوگ بیٹھے تھے، جن میں سے ایک خاتون نے کہا کہ امریکی پابندیوں نے کاروبار اور سفر کو مشکل بنا دیا ہے۔ شہریوں کو اسرائیلی فوج کے انتباہی پیغامات بھی موصول ہو رہے ہیں، جن میں عسکری تنصیبات کے قریبی علاقوں کو خالی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ تاہم، ایک شہری نے سوال اٹھایا کہ ”ہمیں کیسے پتہ کہ عسکری تنصیبات کہاں ہیں؟”
ایران کی وزارت صحت کے مطابق، 12 روزہ جنگ میں 627 افراد ہلاک اور تقریباً 5000 زخمی ہوئے۔ تہران کے رہائشی علاقوں، جیسے کہ آزادی ٹاور کے قریب، امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر اور تہران کے مغرب میں ایک ہوائی اڈے کو نقصان پہنچا۔ تاہم، ایرانی حکام نے دعویٰ کیا کہ جوہری تنصیبات سے اہم مواد پہلے ہی منتقل کر دیا گیا تھا۔
جنگ بندی کے بعد تہران میں ”جشن فتح” منایا گیا، جہاں عوام نے سپاہ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ میجر جنرل اسماعیل قانی کا پرجوش استقبال کیا۔ نیویارک ٹائمز نے قانی کی شہادت کا دعویٰ کیا تھا، لیکن وہ تہران میں صحیح سلامت نظر آئے، جس سے ایرانی عوام کا حوصلہ بلند ہوا۔ آزادی ٹاور پر تہران سمفنی آرکیسٹرا کے ملی نغموں نے عوام کو متحد کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ جنگ بندی پر کوئی ”معاہدہ” نہیں ہوا، جبکہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عوامی سطح پر جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی۔ اطلاعات کے مطابق، خامنہ ای نے اپنی رہائش گاہ چھوڑ کر ایک محفوظ بنکر میں پناہ لی ہے، لیکن اس کی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔
جنگ بندی کے ایرانی ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، لیکن پروگرام رکا نہیں۔ انہوں نے متبادل اقدامات کیے جانے کا دعویٰ کیا۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی نے ایران سے تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ جوہری تنصیبات کا معائنہ کیا جا سکے۔
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ٹیلی فونک رابطے میں جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے ایران کی خودمختاری کی حمایت کی اور خطے میں امن کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی دینا جیسے جرمنی، برطانیہ، اور اقوام متحدہ نے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی۔ جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے سفارتی ثالثی کی پیشکش کی، جبکہ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے استحکام کو اولین ترجیح قرار دیا۔
۸ روزہ اس جنگ نے یرانی شہریوں کو خوف میں مبتلا کیے رکھا ۔ ایک شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ حملوں نے 1980 کی ایرانõعراق جنگ کی یادیں تازہ کر دیں، جب بمباری سے بچنے کے لیے پناہ گاہوں میں جانا پڑتا تھا۔ تاہم، جشن فتح جیسے ایونٹس نے عوام میں امید پیدا کی۔
اب تھوڑا امریکی پابندی کی نرمی سے ایران کی معیشت پر ہونے والے اثرات کا جایزہ لیتے ہیں ۔???24 جون 2025 کی جنگ بندی کے بعد، امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے تیل پر پابندیوں میں نرمی کی، خاص طور پر چین کو تیل کی خریداری کی اجازت دی گئی۔ یہ ایران کی معیشت کے لیے اہم ریلیف ہو سکتا ہے، کیونکہ تیل کی برآمدات سے آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ تاہم، ایرانی حکام کی خاموشی اور جوہری پروگرام کی بحالی کی کوششیں غیر یقینی صورتحال کو برقرار رکھتی ہیں۔

چین کے ساتھ تجارت جاری رہنے سے ایران کی معیشت کچھ حد تک بحال ہو سکتی ہے، لیکن بین الاقوامی مالیاتی نظام سے مکمل انضمام کے بغیر ترقی محدود رہے گی۔ صدر ابراہیم رئیسی کی “مزاحمتی معیشت” پالیسی خود کفالت اور علاقائی تجارت پر زور دیتی ہے، لیکن بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے لیے پابندیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ا
تہران میں جنگ بندی کے بعد زندگی معمول پر آنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ”یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی” کا احساس غالب ہے۔ شہری خوف اور امید کے درمیان جھول رہے ہیں، جبکہ ایرانی حکام جوہری پروگرام کی بحالی اور جوابی کارروائی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان سمیت عالمی برادری خطے میں امن کی ضرورت پر زور دے رہی ہے، لیکن اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ تہران کے شہریوں کے لیے، یہ جنگ نہ صرف عسکری بلکہ نفسیاتی اور معاشی سطح پر بھی جاری ہے۔

Facebook Comments Box