کالم نگار:عبداللہ شاکر
یہودیوں کا نعرہ ہے کہ فلسطین ان کا وطن ہے تاریخی اعتبار سے 90فیصد سے زائدیہودیوں کا فلسطین سے کوئی تعلق نہیں ہے،اور معاصر یہودیوں کاتعلق (الخزراوراشکنار )قبائل سے ہے،جوکہ تاتاری یعنی ترک قبیلے سے ہے،اگر انکو اپنے وطن واپسی لوٹنےکا حق حاصل بھی ہے تو وہ روس کے جنوبی علاقوں میں ہے،نا کہ فلسطین میں۔
فلسطین جانے سے ان کی اکثریت نے انکار کردیا تھااسی طرح سابقہ ادوار میں بھی یہودیوں نے کئی مرتبہ بالقصدارضِ مقدس فلسطین میں آنے سے انکارکردیا تھا،جیسے حضرت موسیؑ اور بعد کے زمانے میں جب ایرانی بادشاہ (قورش ثانی )نے انہیں دوبارہ فلسطین میں بسانے کی پیشکش کی،توان کی اکثریت نے بابل(عراق)سے واپس جانے سے انکار کردیا تھا، اور یہ جو موجودہ فلسطینی ہیں،
یہ ان کنعانیوں کی نسل سے ہیں جن کی وجہ سے اس علاقے کا قدیمی نام ارضِ کنعان پڑا تھا ۔
اس جنگ کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ سن 1978 میں سب سے پہلے مصر نے تسلیم کیا،اور اس سے معاہدہ کیا جسے (کیمپ ڈیوڈ)معاہدہ کہاجاتاہے، اس معاہدے نے اسرائیل کے لیےایک ریاست کے طور پر مضبوطی کی بنیاد رکھ دی تھی ،جس میں دو بنیادی شقیں ملاحظہ کریں
پہلی شق: مصر اور اسرائیل کے درمیان ڈپلومیٹک نمائندگی کا تبادلہ
دوسری شق: دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی مقاطعہ اور جنگی صورت حال کا خاتمہ
اس کے بعد ایک طرف 1991 میں تحریک آزادی فلسطین اورعرب ممالک نے میڈرڈشہر میں اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ مزکرات کے سلسلے کاآغاز کیا،جو بغیر کسی نتیجے کے دوسال تک چلتارہا،لیکن درپردہ مزاکرت بھی اسرائیل نے شروع کردیئےجو(اوسلو)معاہدے کی بنیادبنے،جس پر عرب نمائندوں اوراسرائیل نے 13ستمبر1993کو دستخط کیے،جس میں عرب کی ایک مخصوص قیادت نے( جس میں سب عرب شامل نہیں تھے)اسرائیل کو جائزریاست تسلیم کیا،فلسطینی ریاست کی 77فیصداراضی پر بھی اسرائیلی تسلط جائز تسلیم کیا،اور یہ بھی طے پایا کہ تحریک انتقاضہ کالعدم ہوچکی ہے،اوراسرئیل کےخلاف مسلح کاروائی غیر قانونی سمجھی جائے گی، یوں عرب قیادت فلسطینی عوام کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی، لیکن اس معاہدے کو پورےعالمِ اسلام خصوصاً عرب ممالک میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور عالمِ اسلام کے علماء نے باقاعدہ فتوے جاری کیے کہ فلسطین کی سرزمین کا فیصلہ کرنا کسی کا بھی حق نہیں ہے، خصوصاً غیر فلسطینیوں کا۔ اگر موجودہ وقت میں امت کی حالت کمزور ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ طاقت کے آگے سر جھکا دیا جائے اور یہ کہ مزاحمتی تحریکیں اپنے حجم کے لحاظ سے جاری رہیں گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کردیں۔
اوسلو معاہدے میں فلسطین کے بنیادی ایشوز کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا تھا، مثلاًالقدس شہر کا مستقبل کیا ہوگا؟ فلسطینی مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا ؟ مغربی پٹی اور غزہ کے علاقے میں غاصب صہیونی بستیوں کا کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی اس بھیانک معاہدے میں طے پایا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی حکومت کی نگرانی میں کام کرے گی، فلسطینی اتھارٹی فوج نہیں رکھ سکتی۔ اسرائیل‘ فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرسکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کی اجازت کے بغیر اسلحے کی خریدو فروخت نہیں کرسکتی۔
اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاروں کو گرفتار کرکے اسرائیلی حکومت کے سپرد کرنا بھی اوسلو معاہدے میں شامل تھا، اسی کے ساتھ اوسلو معاہدے میں یہ بھی ظلم کیا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کا سرحدات پر اختیار بالکل ختم کردیا گیا اور فلسطینی اپنی سرزمین میں آنے اور جانے کے لیے اسرائیل کی اجازت کے پابند ہوگئے، ایک اور خطرناک چیز اس معاہدے میں یہ ہوئی کہ اب آزادانہ طور پر کوئی بھی عرب ملک اسرائیل کی حیثیت کو تسلم کرسکتا تھا ۔
سارے یہودی فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے حق میں نہیں ہیں، بلکہ اس عنوان پر اُن کے بھی دو گروہ ہیں: ایک بالکل لبرل بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور دوسرے دنیا سے الگ تھلگ متشدد بن کر۔ اور یہی متشدد طبقہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے کے مکروہ چکروں میں ہے اور امریکہ کی سپورٹ ان کے لیے کیوں ہے؟ اس میں ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ یورپ ان متشدد یہودیوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے، تاکہ یورپ کو ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا جاسکے، اسی لیے وہ ان کی ہر ممکنہ سپورٹ کررہا ہے ۔