تحریر۔اوصاف شیخ
سپریم کورٹ نے اپنے ہی کیئے گئے فیصلہ کے خلاف پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ پر آئینی درخواستیں منظور کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے خلاف فیصلہ جاری کر دیا ۔
مخصوص نشستیں مل جانے سے بھی ہی ٹی آئی کو قومی اسمبلی یا وفاقی حکومت میں کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا اور نہ ہی وفاق ، پنجاب ، اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومتوں کو کوئی نقصان ہونے والا تھا تو بات یہاں تک کیسے پہنچی کہ سپریم کورٹ نے جو کہ پہلے پی ٹی آئی کو اس کے حصہ کی خصوصی نشستیں دینے کا فیصلہ دے چکی تھی اب پشاور ہائیکورٹ کے خصوصی نشستیں پی ٹی آئی کو نہ دینے کے فیصلے پر آئینی درخواستیں منظور کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے یہ حق چھین لیا
اس سے قبل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بھی چھینا جا چکا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز نے اپنے اپنے حلقوں میں اپنے اُمیدواروں کے نشان ڈھونڈ ڈھونڈ کر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیئے اور اس تعداد میں ووٹ دیئے کہ باوجود شدید دھاندلی اور نشان چھینے جانے کے ووٹوں کا بہت بڑا حصہ پی ٹی آئی کو ملا حالانکہ ہر حلقہ میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے انتخابی نشان مختلف تھے
پھر بھی پی ٹی آئی اتنی زیادہ تعداد میں نشستیں جیت رہی تھی کہ پی ٹی آئی کو جیت سے دور کرنے کے لیئے فارم سینتالیس کا سہارہ لیا گیا جس کا تذکرہ بچے بچے کی زبان پر ہے
پی ٹی آئی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کے تقابل اسے جو مخصوص نشستیں ملنا تھیں اس پر جھگڑا شروع کر دیا گیا کہ ہی ٹی آئی تو اپنے انتخابی نشان پر الیکشن ہی نہیں لڑی یہ تو سنی اتحاد کونسل تھی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ مقصد ہی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے بھی محروم رکھنا تھا
الیکشن کمیشن۔ ے ہی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کر دیا تو ہی ٹی آئی عدالت چلی گئی ، پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھیننے والے قاضی فائز عیسی’ ریٹائر ہو چکے تھے سپریم سے بالآخر ہی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ آیا کہ پی ٹی آئی کے حصہ کی مخصوص نشستیں اسے دی جائیں جس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔۔۔۔ آئینی بنچ تشکیل دیا گیا ، پشاور ہائیکورٹ سے ہی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ لیا گیا اور سپریم کورٹ کے ایسے ہی مقاصد کے لیئے بنائے گئے بنچ سے اس فیصلہ کی توثیق کروا کر ہی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کر کے پاکستان میں آزاد نظام عدل کے نعرے لگائے گئے
یہاں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلہء صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کا نہیں تھا ۔ وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں مل بھی جاتیں تو کچھ فرق نہ پڑتا
یہاں مسلہء کچھ اور تھا وہ یہ کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے کسی بھی طرح کی ڈیل نہ کرنے پر قائم رہنے پر ان پر دباؤ ڈالنے کے لیئے خیبر پختون خواہ حکومت کو ہی ٹی آئی سے چھیننے کی دھمکی جو کہ مخصوص نشستوں کے فیصلہ کے بعد قابل عمل ہو سکتی ہے
مخصوص نشستوں کے اس فیصلہ نے خیبر پختون خواہ حکومت کے سر پر تلوار لٹکا دی ہے اگر عمران خان کسی بھی ڈیل پر نہیں آتے تو خیبر ہختونخواہ اسمبلی میں آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملا کر عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے کیونکہ مخصوص نشستوں کے فیصلہ کے بعد خیبرپختونخواہ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 52 ہوگئی جبکہ حکومتی ہی ٹی آئی ارکان کی تعداد 58 ہے اس طرح 35 آزاد اراکین اسمبلی کی پوزیشن اہم ہوگئی ہے ان کو ساتھ ملا کر نہ صرف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے بلکہ اسے کامیاب بھی کروایا جا سکتا ہے ۔ اس طرح مخصوص نشستوں کا سارا کھیل عمران خان کے ساتھ ڈیل یا اس میں ناکامی کی صورت میں خیبر پختونخواہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور صورت اگر پیدا ہوگئی تو کیا ہوگا اگر خطرہ کو بھانپتے ہوئے اس سے پہلے ہی وزیر اعلی’ خیبر ہختونخواہ نے اسمبلی توڑ دی تو آئینی بحران پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے