بلوچستان کے عوام کی آواز سینٹ کے ایوانوں میں گونج اُٹھی

تحریر: محمد حنیف کاکڑ راحت زئی

آج جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر اور سینیٹر حضرت مولانا عبد الواسع صاحب نے سینیٹ کے اجلاس میں بلوچستان کے عوام کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی توجہ ایک نہایت اہم اور سنجیدہ مسئلے کی طرف مبذول کرائی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے نوجوان آج بھی روزگار کے لیے دربدر پھر رہے ہیں، حالانکہ وفاق کی جانب سے صوبے کے لیے 6 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے، مگر اس پر بھی مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ بلوچستان کے کوٹے پر دیگر صوبوں کے ڈومیسائل رکھنے والے افراد بھرتی کیے جا رہے ہیں، جبکہ اصل حقدار نوجوان بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔

حضرت مولانا عبد الواسع نے معدنی وسائل (مائنز اینڈ منرلز) کے حوالے سے بھی موثر آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایک قدرتی خزانے سے مالا مال خطہ ہے، اور یہاں کی معدنیات پر سب سے پہلا اور بنیادی حق مقامی آبادی کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی ان علاقوں پر بلوچستان کے عوام کا تصرف تھا، مگر آج ان کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ مسلم باغ اور آس پاس کے علاقوں سے کرومائٹ سے لدے ٹرک جب کراچی کی طرف جاتے ہیں تو ان پر فائرنگ معمول بن چکی ہے، لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، جس سے مقامی لوگوں میں شدید عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔

زرعی زمینوں کی بندربانٹ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا صاحب کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہزاروں ایکڑ اراضی خفیہ طریقے سے الاٹ کی جا رہی ہے، جبکہ اصل مقامی باشندوں کو اس کی کانوں کان خبر بھی نہیں۔ ان کے مطابق نہ ان سے مشورہ کیا جاتا ہے، نہ اعتماد میں لیا جاتا ہے، بلکہ فیصلے زبردستی مسلط کیے جاتے ہیں۔ یہ طرز عمل ایک اور بڑی محرومی کی شکل میں بلوچستانی عوام کے سامنے آ رہا ہے، جس سے عوامی اشتعال میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حضرت مولانا عبد الواسع صاحب نے اپنی تقریر کے اختتام پر وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپیل کی کہ بلوچستان کے عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کے لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائی، قربانیاں دیں، لیکن بدلے میں انہیں محرومیاں، پسماندگی اور نظرانداز کیے جانے کا سلوک ملا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ بلوچستان کو اس کا آئینی، قانونی اور انسانی حق دیا جائے، اور وہاں کے عوام کو ملکی فیصلوں میں برابر کا شریک بنایا جائے۔

Facebook Comments Box