تحریر۔مہناز رحمان
شکارپور کے لوگ بہت ہی مہمان نواز اور محبت کرنے والے تھے۔ یہاں تک کہ چھوٹے ملازمین میں سے بھی کبھی کوئی خالص مکھن تو کبھی کوئی چھتے سمیت شہد اور کوئی اپنے شکار کردہ تیتر لیے چلا آ رہا ہے۔ ان کی محبتیں اپنی جگہ مگر کراچی کی لڑکی کے لئے شکارپور ایک انتہائی دقیانوسی جگہ تھی۔ کہاں کراچی جہاں لڑکیوں کے باہر نکلنے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور کہاں شکارپور جہاں کوئی لڑکی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ لڑ کی کی بات چھوڑئیے، کسی بھی بڑے شہر میں رہنے والے کا وہاں دل نہیں لگ سکتا تھا لیکن اس وقت میں یہ سب کچھ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی میں نے اس بارے میں کچھ سوچا تھا۔ ابی وہاں سیون اپ فیکٹری کے منیجر کی حیثیت سے گئے تھے جو شکارپور کی پہلی ماڈرن فیکٹری تھی۔ اس لئے ابی کو وہاں جاتے ہی وی آئی پی کا درجہ حاصل ہو گیا۔ ہماری رہائش کے لئے شہر سے باہر جیکب آباد روڈ پر فیکٹری کی چھت پر ایک مکان تعمیر کیا گیا تھا۔ کراچی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دونوں شہروں میں اتنا زبردست ثقافتی فرق ہو گا۔ پورے شہر میں صرف امی اور میں دو عورتیں تھیں جو بغیر برقع کے باہر نکلتی تھیں۔
جب بھی امی اور میں کسی کام سے اندرون شہر جاتے تو بچے ہماری کار کو گھیر کر کھڑے ہو جاتے اور حیرت سے ہمیں دیکھا کرتے۔ ان کی کھسر پھسر سے ہمیں لگتا تھا کہ ان کے خیال میں ہم یا تو فلمی اداکار ہیں یا غیر ملکی شہری ہیں۔ ایک واقعہ میں زندگی بھر نہیں بھلا پاؤں گی۔ عید کے موقع پر آس پاس کے گوٹھوں سے لوگ بڑی تعداد میں شکارپور آتے تھے۔ ایک مرتبہ عید کے دنوں میں ابی مجھے ساتھ لے کر شہر کے مشہور بازار لکھی در مٹھائی خریدنے گئے۔ دکان کے سامنے گاڑی روک کر وہ تو اندر چلے گئے۔ میں حسب عادت اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کے دیکھا تو کار کے چاروں طرف گہرے نیلے اور نارنجی اور دیگر شوخ رنگوں کی لمبی قمیصیں اور تہمد باندھے ہوئے مردوں کا ہجوم حیرت کے عالم میں مجھے گھور رہا تھا۔ مجمع اتنا بڑھ گیا کہ دو پولیس والے آ گئے اور لاٹھیاں مار کے انہیں ہٹانے لگے۔ وہ لاٹھیاں کھاتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے لیکن ان کی حیرت سے پھٹی ہوئی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔
شاید اس سے پہلے انہوں نے کبھی کسی شہری لڑکی کو یا بغیر برقع والی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔ اس طرح لوگوں کی حیرت زدہ نگاہوں کا مرکز بننا ایک عجیب سا تجربہ تھا جو مجھے غیرحقیقی سا لگا اور قدرے پریشان کن بھی۔ ایک طرف تو یہ صورت حال تھی اور دوسری طرف شکارپور کے گورنمنٹ ڈگری کالج میں جس میں میرا داخلہ ہوا وہاں مخلوط ذریعہ تعلیم تھا۔ یہ اور بات کہ چار پانچ سو لڑکوں کے ساتھ صرف چار یا پانچ لڑکیاں وہاں زیر تعلیم تھیں۔ جو سفید ململ کے چادر نما دوپٹے اوڑھے کلاس ختم ہوتے ہی چھوٹے سے گرلز کامن روم میں خود کو بند کر لیتی تھیں اور ہر وقت ڈری سہمی رہتی تھیں۔
شکارپور کے وڈیرہ خاندان جو لڑکیوں کو تعلیم دلانا چاہتے تھے، وہ اپنی لڑکیوں کو شکارپور کے اس کالج میں بھیجنے کی بجائے حیدرآباد گورنمنٹ گرلز کالج بھیجتے تھے جہاں ہوسٹل کی سہولت موجود تھی۔ شکار پور کے کالج میں جا کر مجھے احساس ہوا کہ آپ کا طبقاتی مقام و مرتبہ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ابی کو اپنی ملازمت کی وجہ سے شکارپور میں ایک اہم مقام حاصل نہ ہوتا تو شاید مجھے بہت زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ کبھی بھی کسی نے مجھے تنگ نہ کیا ہو۔ ایک چھوٹے سے قریبی شہر سے ہمارے کالج آنے والا ایک مشہور وڈیرہ خاندان کا لڑکا میرے پیچھے پڑ گیا تھا اور اپنی کار میں میرا پیچھا کرتا تھا۔ میں نے گھر میں ابی سے اس کی شکایت کر دی۔ ابی کی اس کے والد سے جان پہچان تھی، انہوں نے اس کے والد سے شکایت کی جس پر انہوں نے ہمارے گھر آ کر معذرت کی اور پھر اس لڑکے نے مجھے کبھی تنگ نہیں کیا۔
شکارپور کالج میں میری ایک لڑکی ’س‘ سے دوستی ہو گئی۔ وہ حیدرآباد سے پڑھ کر آئی تھی اور مجھے حیدرآباد کے طلبہ کی ثقافتی اور غیر نصابی سر گرمیوں کی کہانیاں سناتی رہتی تھی۔ وہ اکثر مجھے اس وڈیرے کے لڑکے کا نام لے کر چھیڑا کرتی مگر مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ معلوم نہیں اس کے ذہن میں کوئی منصوبہ تھا یا محض معصوم سی رومانویت تھی جو بھی تھا میں سمجھتی ہوں کہ ابی کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے میں بہت سی مشکلات سے بچتی رہی۔ لیکن اس کی مجھے ایک رومان بھری دنیا میں کھینچنے کی کوششیں بالکل بے سود بھی نہیں رہیں، ایک روز میں نے اسے بتا دیا کہ فرسٹ ائر میں مجھے کوئی پسند آ گیا تھا لیکن میں نے کبھی اس شخص کے سامنے اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس وقت تو اس نے خاموشی سے میری بات سن لی مگر بعد میں اس کے سامنے اس معصوم سے راز کا افشا میرے لئے بے حد خوف ناک ثابت ہوا اور اس کی وجہ سے سالوں میں اذیت اور تکلیف میں مبتلا رہی۔
حیدرآباد ہوسٹل میں قیام :
جیسے تیسے میں نے شکارپور کے سی اینڈ ایس کالج سے بی اے پارٹ ون کا امتحان دیا لیکن امی اور میری سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ گئی تھی کہ میں اس کالج میں مزید نہیں رہ سکتی چنانچہ امی اور ابی مجھے حیدرآباد لے گئے اور مجھے گورنمنٹ گرلز کالج جو زبیدہ کالج کے نام سے مشہور تھا، میں بی اے فائنل میں داخل کروا دیا اور یوں میں نے ایک سال کالج کے ہوسٹل میں گزارا۔ مشہور ماہر تعلیم آپا شمس کالج کی پرنسپل تھیں۔ آپا مریم نوحانی، امینہ ہالیپوتہ اور عقیلہ اسلام جیسی ہستیاں وہاں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتی تھیں۔
حیدرآباد ہوسٹل میں قیام کے ابتدائی دنوں میں ایک روز میری شکارپور والی سہیلی کا بھائی مجھ سے ملنے آیا۔ وہ شکل سے کافی پریشان لگ رہا تھا۔ اس کی بہن گھر چھوڑ کر کراچی چلی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید مجھے اس کا اتا پتا معلوم ہو لیکن میں تو اس بارے میں یکسر لا علم تھی۔ میرا اس کوئی رابطہ نہیں تھا مگر اس بے چین روح نے کراچی جا کے میرے کالج کے استاد کو ڈھونڈ نکالا اور اسے بتا دیا کہ فرسٹ ائر میں مجھے اس پر کرش تھا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ پھر کیا ہوا؟
(جاری ہے )