تقوی اور علم و عمل کے پیکر

ازقلم: حافظ امیرحمزہ حیدری

میرا بچپن صرف کھیل کود یا لاپرواہی کی داستان نہیں، بلکہ ایک روحانی تربیت اور علمی سفر کا آغاز بھی ہے۔ جس کی بنیاد خلوص، محبت اور دین سے سچی وابستگی پر رکھی گئی۔ مجھے اس بہترین سفر پر لگانے والے میرے والد محترم محمد سرور رحمہ اللہ اور سید عبد الشکور شاہ رحمہ اللہ تھے۔ میرے بچپن کا کچھ وقت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے گھر میں بھی گزرا ہے اور یہ ایک ایسی نسبت تھی جس نے میری زندگی کا رخ متعین کر دیا۔
شاہ صاحب ستیانہ مرکز میں مدرس تھے۔ جمعرات کو سانگلہ ہل اپنے گھر آتے اور باغوالی مسجد میں جمعہ پڑھانے کے بعد کبھی اسی دن اور کبھی ہفتے والے دن واپس ستیانہ چلے جاتے تھے۔ شاہ صاحب نے اگر کسی کام کے لیے کہیں قریب یا کسی دوسرے شہر جانا ہوتا تو اکثر اپنے ساتھ مجھے بھی لے جاتے۔کئی شہروں ، مشہور مکتبوں اور معروف شخصیات کو میں نے آپ کے ساتھ جانے کی وجہ سے ہی دیکھا تھا۔
انہی سفروں میں سے کبھی میرا سفر 36 چک ستیانہ بنگلہ مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ کے گھر میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا، کیونکہ شاہ صاحب اور استاد محترم عتیق اللہ سلفی آپس میں قریبی رشتہ دار تھے۔
غالباً 2010 کا زمانہ تھا جب میں نے جامع مسجد باغوالی، سانگلہ ہل میں قرآن پاک حفظ مکمل کیا۔ اس موقع پر سید عبد الشکور شاہ رحمہ اللہ نے میری دینی تعلیم کے اگلے مرحلے کا بھی فیصلہ کیا۔
ایک دن انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں مجھ سے بات کی حمزہ! اب علمِ دین حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھاؤ۔ستیانہ مدرسہ میں عالم دین بننے کے لیے ، تو میں نے کہا شاہ صاحب ’’جیسے آپ مناسب سمجھیں‘‘
یہ بات میرے لیے معمولی سی تھی، مگر ان کے لیے یہ ایک ذمہ داری تھی۔ انہوں نے جو سوچا، وہ میری زندگی کا رخ بدلنے والا قدم تھا۔ چند ہی دن بعد انہوں نے اپنے بیٹے سید طیب شاہ کے ساتھ مجھے مدرسہ ستیانہ بھیج دیا تاکہ وہاں مجھے شعبہ کتب درس نظامی میں داخل کروا کر آئیں۔ میں دل میں ایک نئی دنیا کے خیال سے پرجوش تھا، لیکن ساتھ ساتھ کچھ گھبراہٹ بھی تھی کہ اپنوں سے اور اپنے آبائی علاقے سے بہت دور رہنا پڑے گا …..
یہ اس وقت کی بات ہے جب ستیانہ میں تعلیمی سال کا ششماہی (نصف) حصہ گزرنے والا تھا۔ مدرسہ کے منتظم مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ نے ہماری بات سنی اور فرمایا:’’اب بہتر یہ ہے کہ آپ بچے کو اگلے سال داخل کروائیں اور اس سال کے اختتام تک ہمارے حفظ والے مدرسہ میں اپنی منزل یاد کر لے‘‘۔
مشاورت سے یہی طے پایا کہ ستیانہ حفظ والے مدرسہ میں نصف سال گزار لیا جائے۔ اگلے سال، جیسا کہ طے تھا، میرا داخلہ شعبہ کتب مدرسہ مرکز علوم اسلامیہ ستیانہ میں ہو گیا۔ یہ مدرسہ میرے لیے کسی مکتب سے بڑھ کر ایک روحانی اور علمی دنیا ثابت ہوا۔ الحمدللہ۔ یہاں اساتذہ کا وقار، طلبہ کا شوق اور تعلیمی ماحول نے میرے دل کو تسخیر کر لیا۔
مدرسہ کے ابتدائی دن، اساتذہ کی شفقت، آج بھی میرے دل میں زندہ ہیں۔ میں جب بھی ان لمحوں کو یاد کرتا ہوں، تو دل شکر گزاری سے بھر جاتا ہے اور بہت دعائیں نکلتی ہیں۔
استاد محترم عتیق اللہ سلفی صاحب کو مجھ سے خاص شفقت تھی، اور اس شفقت کی ایک بڑی وجہ شاہ صاحب کے ساتھ میری نسبت اور تعلق تھا۔ استاد محترم عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ کو اللہ تعالی نے بہت ہی خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔ آپ کا انداز بیان حالات کی نزاکت کے حساب سے کبھی سخت اور کبھی نہایت شفقت آمیز اور علم دوست ہوتا۔ آپ کی شخصیت میں علم و حلم، زہد و تقویٰ، انکساری اور اخلاص یکجا تھے۔ ان کے دروس اور اسباق میں علم کی گہرائی، فہم کی روشنی اور دین کا درد نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ ستیانہ بنگلہ کے وہ جلیل القدر عالمِ دین تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے خطے میں دینِ اسلام کی خالص دعوت کو عام کیا۔ ہمیشہ طلبا کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔
آپ کے شب و روز قرآن و سنت کے پیغام کو عملی طور پر پھیلانے میں مصروف رہتے۔ آپ کی زندگی میں کئی ایسے روحانی پہلو نمایاں تھے، جو لوگوں کے ایمان و تقوی کو مضبوط کر دیتے تھے۔
بعض اوقات آپ درس و تدریس کے دوران اپنے والدین، اپنے اساتذہ اور خصوصا محدث العصر مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ جو کہ میرے بھی استاد تھے، کے روحانی واقعات بیان کرتے کرتے بے ساختہ رونا شروع ہو جاتے اور بعض اوقات طلبا اور اساتذہ پر بھی رقت طاری ہو جاتی۔ آپ جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو پوری یکسوئی اور یقین کامل کے ساتھ اللہ سے گڑگڑا کر مانگتے تھے۔
ایک دفعہ آپ سے ایک مریض کی صحت یابی کے لیے دعا کی درخواست کی گئی تو آپ نے نہایت عاجزی سے دعا کی اور اللہ تعالی نے چند ہی دن بعد اس مریض کو شفایاب کر دیا۔ اس طرح کے بہت سے ان کے روحانی واقعات میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں….. دور دراز علاقوں سے سفر کر کے آپ سے صرف دعا کروانے کے لیے لوگ آیا کرتے تھے۔ آپ کو مستجاب الدعوات اور ولی کامل جیسے بڑے بڑے القابات سے لوگ پکارتے تھے۔ جبکہ آپ اپنی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ عاجزی اور انکساری کو پسند کرتے اور اسی بات کا طلبا کو وقتا فوقتا درس دیتے رہتے تھے۔ رات کے پچھلے پہر جب لوگ سوٸے ہوتے تو آپ تہجد میں اپنے والدین، اساتذہ،طلبااور مرکز کے معاونین کے لیے نام لے لے کر دعائیں کیا کرتے تھے۔
اساتذہ اور طلبا آپ کو محض مدیر یا استاد ہی نہیں بلکہ ایک مربی اور روحانی باپ سمجھتے تھے۔اساتذہ کے ساتھ آپ کا برتاؤ نہایت احترام اور محبت پر مبنی تھا، جس کی وجہ سے پورا ادارہ محبت و اخلاص کی فضا میں پروان چڑھا ہوا ہے الحمد للہ۔آپ ایک روشن چراغ تھے، کہ جن کی زندگی کا ہر لمحہ قرآن و سنت کی خدمت اور دین کے فروغ کے لیے وقف رہا۔ آپ نے اپنے اخلاص، تقویٰ، علم و عمل اور بلند اخلاق کے ذریعے طلبا، اساتذہ اور عام عوام کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔آپ کی تعلیمات نے طلبا کو اخلاص، خدمتِ دین اور سادگی کی راہوں پر چلنے کا سلیقہ سمجھایا ۔آپ کے شاگرد اور معتقدین اندرون اور بیرون ممالک اپنے اپنے انداز میں دین کی خدمت کر رہے ہیں، اور جہاں بھی جاتے ہیں آپ کے تقوی اور پرہیزگاری کا تذکرہ نہایت اچھے انداز میں کرتے ہیں۔
استاد محترم 18 اگست 2025 کو ایک مختصر علالت کے بعد دنیا فانی سے دارالبقاء کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی نماز جنازہ 19 اگست 2025 کو ستیانہ اور آبائی گائوں 36چک میں ادا کی گٸی۔ آپ کو وہی جہاں سینکڑوں اللہ کے ولی دفن ہیں، اپنے گائوں کے قبرستان، اپنی والدہ محترمہ کے قدموں میں دفن کیا گیا۔
بلاشبہ آپ کی وفات ایک بہت بڑا خلا ہے، جو شاید کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔استاد محترم رحمہ اللہ کی زندگی کا ہر پہلو درس و تربیت، دین کی خدمت اور اخلاص سے عبارت رہا۔ آپ کی وفات کے باوجود آپ کی آل اولاد،ہزاروں شاگرد اور چھوڑے ہوئے علمی و روحانی نقوش آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان شاء اللہ

Facebook Comments Box