عروج کو زوال اور اسباب

تحریر-نظام الدین

تہذیب تمدن اور طاقت کی بقاء علم اخلاق اور شعور سے جڑ ی ہوتی ہے جب علم اخلاق شعور زوال پذیر ہوجائے تو سلطنتیں تعلیمی ادارے اور تمدن محض عمارتیں رہ جاتی ہیں انسانیت روح اور طاقت ان سے رخصت ہو جاتی ہے,,
یہ جملہ آج کے امریکہ کے منظر نامے پر پوری طرح صادق آتا ہے، کیوں ؟ کیونکہ۔ اس وقت امریکہ میں جو سیاسی ٹولہ حکومت میں شامل ہے وہ تمام کے تمام بیمار ذہنیت کے مالک ہیں جو ماضی میں تمام” زوال پذیر ہونے والی قوموں کے زوال کا باعث بننے تھے ، اگر امریکی قوم نے جلد ہی اس ٹولے کو اتار نہ پھینکا اور موجودہ پالیسیوں کو درست نہ کیا تو امریکہ کا زوال اس قدر تیزی سے ہوگا کہ دوبارہ اسے سر اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا، یہ مضمون محض امریکہ پر تنقید نہیں بلکہ ایک گلوبل ریالٹی کا آئینہ ہےجب جب کسی سپر پاور نے اپنے آپ کو لافانی و ناگزیر سمجھ کر طاقت کو اپنا حق سمجھنا شروع کیا اور اخلاقی توازن کھویا تو اسی لمحے وہاں زوال کا آغاز شروع ہوگیا ، امریکہ بھی اسی تاریخی دھارے پر چل نکلا ہے جہاں عزت کمانے کے بجائے خوف پیدا کرنا ترجیح بن چکا ہے ، ایک وقت تھا جب امریکی یونیورسٹیوں میں سائنسی تحقیق کا عروج بہت تیزی سے ہوا، ان یونیورسٹیوں کے بطن سے گوگل،انٹل، کاچ اور ڈیل جیسے منصوبے پیدا ہونا شروع ہوئے تو امریکی معیشت آسمان کو چھونے لگی ، پھر ۔بائبل بیلٹ سے تعلق رکھنے والے علم سائنس، سیاست، اور سماج سے نابلد سرمایہ داروں کی کوششوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت قائم ہوگئی ، جو یہ سمجھتے ہیں میکسیکن، مسلمان سیاہ فام مائیں اور وہ لوگ جو گھر بیٹھے سوشل کھاتے ہیں۔ وہ امریکہ پر بوجھ بن گئے ہیں ، اسی طرح ڈی وانس، جو امریکی نائب صدر ہیں ، نے جولائی 2024 میں بیان دیا تھا کہ ”پروفیسر اصل دشمن ہیں“۔ان کا کہنا تھا:”ہمیں جی جان سے اور بھر پور طریقے سے یونیورسٹیوں پرحملہ کرنا ہو گا“۔ اس طرح کے زہن رکھنے والے لوگوں کی سرپرستی میں چلنے والے وائٹ ہاؤس نے
یونیورسٹیوں میں برابری، تنوع، نسل،پس ماندہ گروہوں کی حمایت کے لئے اقدامات،ماحولیاتی تبدیلی،ویکسین کی افادیت،جنگلی حیات یا”ووک“ سمجھے جانے والے ہر موضوع پر پابندی لگا دی ۔اسرائیل پر تنقید کو یہود دشمنی قرار دے کر اسے قانونی جرم قرار دے دیا گیا اسرائیلی فوجی غزہ کے بچوں پر گولیاں چلا رہے ہیں، تو اسے آپ جینو سائڈ نہیں کہہ سکتے۔بیمار ذہنیت والا ایک گروہ بے رحمی کے ساتھ ”لبرل اسٹیبلشمنٹ“ کا خاتمہ کر رہا ہے۔ایک معتبر سائنسی جریدے ”نیچر“ کے زیر اہتمام ہونے والے ایک جائزے کے مطابق،75فیصد امریکی سائنس دان ملک چھوڑنے کے بارے سوچ رہے ہیں۔
کولمبیا جیسی یونیورسٹی نے حکومت کو اپنے یہودی ملازمین کو یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران ہراس کیے جانے پر“21 ملین ڈالر ادا کئے۔فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے پر پابندی ہے۔ نصاب بدلا جا رہا ہے۔مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹس میں آنے والے نئے اساتذہ کو اسرائیل اینڈ جوئش اسٹڈیز کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔ان تمام اقدامات کے جواب میں وفاقی حکومت،کولمبیا یونیورسٹی کی 400 ملین ڈالر پر مبنی ریسرچ فنڈنگ جاری کر دے گی۔
کولمبیا جب یہ شرمناک کام کرنے پر مجبور ہوگئی تو اگلا نشانہ ہارورڈ یونیورسٹی تھی۔ٹرمپ نے کہا کہ ہارورڈ کے 9 ارب ڈالرروک لیے جائیں۔مزید یہ حکم دیا کہ ہارورڈ غیر ملکی طلبہ کی میزبانی نہیں کرسکتا۔طلبہ میں بے چینی پھیل گئی۔ہارورڈ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔کئی مقدمے دائر کر دیے۔ کئی ایسی جامعات جن کے پاس بہت زیادہ انڈاومنٹ فنڈز نہیں، وہ بے چینی سے ان مقدموں کے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کسی دن ٹرمپ کا غصہ ان پر بھی نکل سکتا ہے،، اسی طرح امریکہ بنیادی طور پر دنیا بھر سے ہجرت کرکے آنے والوں کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا ۔ ریڈ انڈین قبائل اس سر زمین کے اصل باشندے تھے، لیکن دنیا بھر سے آنے والے مہاجرین نے رفتہ رفتہ ان کی زمینیں چھین لیں اور اپنی بستیاں آباد کیں۔ آج کا امریکہ انہی لہر در لہر آنے والے مہاجرین کی مشترکہ کاوش کا عکس ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ دور میں ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں اپنی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کے باعث شہرت حاصل ہے، خود ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی جڑیں جرمنی اور اسکاٹ لینڈ میں پیوست ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ٹرمپ کے اجداد خود مہاجر تھے تو پھر وہ امریکہ میں بسنے والے لاکھوں غیر ملکی مہاجرین کو بے دخل کرنے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جائزہ تین پہلوؤں سے لینا ناگزیر ہے: امریکہ کا آئین ہر فرد کو عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے کا حق دیتا ہے۔ بڑے پیمانے پر لاکھوں افراد کو بیک جنبشِ قلم بے دخل کرنا محض سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے مگر عملی و قانونی اعتبار سے ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ کئی امریکی ریاستیں “پناہ گاہ” پالیسی اختیار کرتی ہیں، جہاں ریاستی ادارے وفاقی حکومت کے ساتھ امیگریشن گرفتاریوں میں مکمل تعاون نہیں کرتے۔ اس لیے ٹرمپ کے کسی بھی منصوبے کو فوری طور پر آئینی چیلنجز کا سامنا ہے ، امریکہ کی معیشت کی کئی صنعتیں بالخصوص زرعی شعبہ، تعمیرات، ریستوران اور گھریلو خدمات مہاجرین پر انحصار کرتی ہیں۔ اگر لاکھوں مہاجرین کو اچانک بے دخل کر دیا جائے تو لیبر مارکیٹ میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگا جسے مقامی امریکی پورا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے نتیجے میں اجرتوں میں اضافہ ، پیداوار میں کمی اور مہنگائی میں شدد یقینی ہوگی ۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر قانونی مہاجر بھی بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ملکی معیشت میں اربوں ڈالر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس پہلو کو نظر انداز کرنا امریکی معیشت کے لیے خودکشی کے مترادف ہے، امریکہ کی بنیاد ہی ہجرت پر ہے۔ آئرش، جرمن، اطالوی، افریقی غلام، اور پھر ایشیائی و لاطینی امریکی سب نے اس سرزمین کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا۔ اگر آج نئے آنے والے مہاجرین کو “بوجھ” یا “خطرہ” کہا جائے تو پھر یہی اصول ماضی کے یورپی مہاجرین پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ اخلاقی لحاظ سے یہ ایک واضح تضاد ہے کہ ٹرمپ جیسے رہنما، جو خود ایک مہاجر نسل سے تعلق رکھتے ہیں، نئے مہاجرین کے خلاف سخت ترین پالیسیاں بنائیں۔
امریکہ کا اصل چیلنج یہ نہیں کہ مہاجرین کو نکال دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ انہیں معاشی، سماجی اور قانونی نظام میں کس طرح بہتر طور پر شامل کیا جائے تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہی مہاجرین امریکہ کی طاقت اور ترقی کا اصل سرمایہ رہے ہیں اگر امریکہ اپنی ہی بنیادوں کو کمزور کرے گا تو نہ صرف معاشی نقصان اٹھائے گا بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی دنیا کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ اور پھر دنیا کے لکھاری زوال کے اسباب لکھتے رہیں گے کہ امریکہ بھی کبھی سپر پاور ہوا کرتا تھا ؟

Facebook Comments Box