30 اگست مسنگ پرسنز ڈے، پاکستان اور دنیا بھر سے منسلک حقائق

تحریر۔عبداللہ حیدر

انٹرنیشنل مسنگ پرسنز ڈے ہر سال 30 اگست کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاکہ ان افراد کی حالت پر روشنی ڈالی جا سکے جو مختلف وجوہات کی بنا پر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس دن کو خصوصی طور پر فتنتہ الہندوستان جیسے دہشتگرد گروہ اور ان کی پراکسی تنظیمیں ریاست کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) جیسی تنظیمیں ایسے دنوں کو عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے بروئے کار لاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے افراد کو “لاپتہ” قرار دیتی ہیں جو درحقیقت ان ہی کے ساتھ منسلک ہوکر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا جنہیں یہ تنظیمیں زبردستی اپنے کیمپوں میں لے جاتی ہیں۔ ان عناصر کی سب سے بڑی ترجمان ماہرنگ غفار اور اس کی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) ہیں، جو جھوٹ اور فریب کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلاتی ہیں۔ اس طرح مسنگ پرسنز کا بیانیہ انسانی حقوق کے پردے میں ایک خوفناک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فتنتہ الہندوستان کے یہ گروہ مسنگ پرسنز کے نام پر ایسے افراد کو پیش کرتے ہیں جو براہ راست ریاست دشمن کارروائیوں میں شامل رہے۔ مثال کے طور پر جعفر ایکسپریس پر حملے کے دوران مارے جانے والے دہشتگرد نور زمان بلوچ اور ندیم، جن کا تعلق تربت اور گوادر سے تھا، بی وائی سی کی فہرست میں “لاپتہ” افراد کے طور پر درج تھے۔ اسی طرح گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ کرنے والا حمال فتح بلوچ اور بی ایل اے کے رکن کریم جان بلوچ کو بھی انہی مہمات میں لاپتہ ظاہر کیا گیا، حالانکہ ان کے اپنے اہلِ خانہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ دہشتگرد تنظیموں سے منسلک تھے۔ یہ سب مثالیں اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ پروپیگنڈا کس طرح سچائی پر غالب لانے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی طرح نوشکی کے علاقے قادر آباد کے جہانزیب مینگل عرف بالاچ کا کیس بھی ایک اہم مثال ہے۔ وہ دو سال سے بی ایل اے کے ساتھ سرگرم رہا اور 27 مارچ کو ایک آپریشن کے دوران مارا گیا۔ مگر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسے بھی “لاپتہ” قرار دے کر ریاست کے خلاف شدید پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے کیسز کے پیچھے ہمیشہ دہشتگردانہ سرگرمیاں اور ریاست دشمنی کا تسلسل چھپا ہوتا ہے، مگر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے انہیں مسنگ پرسنز کا لبادہ اوڑھایا جاتا ہے۔ اس طرح کے منظم جھوٹ کا مقصد عوامی ہمدردی سمیٹنا اور ریاستی اداروں پر غیر حقیقی دباؤ ڈالنا ہے۔

اگست 2024 میں لسبیلہ آپریشن کے دوران مارا جانے والا دہشتگرد طیب بلوچ عرف لالا بھی ایک ایسی ہی مثال ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ماما قدیر کی جانب سے اسے “جبری گمشدہ” ظاہر کیا گیا اور اس کے حق میں ایف آئی آر تک درج کروائی گئی۔ حالانکہ وہ کئی برسوں سے بی ایل اے کے ساتھ پہاڑوں پر موجود رہا اور ریاست مخالف کارروائیوں میں ملوث تھا۔ اس پروپیگنڈے کا سب سے بڑا نقصان اس کے اپنے خاندان کو ہوا، جو اس کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے رہے اور نادانستہ طور پر دہشتگرد تنظیموں کے جال میں پھنس گئے۔ اس پورے کھیل کا مقصد ریاستی اداروں پر الزام تراشی اور عوامی جذبات کو مشتعل کرنا ہے۔

ماہرنگ غفار کی سرگرمیاں بھی اسی پروپیگنڈے کی بنیاد ہیں۔ اس نے کامران بلوچ کو لاپتہ قرار دیا اور سوشل میڈیا پر واویلا کیا کہ انہیں مشکے سے فورسز نے اٹھایا ہے۔ مگر جلد ہی بلوچ لبریشن فرنٹ نے کامران بلوچ کو اپنا کارکن قرار دے کر ہیرو کا خطاب دیا اور پوسٹر جاری کر دیے۔ یہ واقعہ ماہرنگ غفار کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کرتا ہے، جو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ “لاپتہ افراد” کا بیانیہ ایک منظم فریب ہے، جو دہشتگردوں کو ہیرو بنانے کے لیے گھڑا جاتا ہے۔

بی ایل اے کے کمانڈر عید محمد عرف شکاری کو بھی “لاپتہ” ظاہر کیا گیا، جبکہ وہ 2013 سے دہشتگرد تنظیم سے منسلک تھا۔ 28 فروری 2025 کو قلات کے علاقے نرموک میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران مارا گیا۔ اسی طرح انجنیئر ظہیر بلوچ کے کیس میں بھی پروپیگنڈا ہوا، جب 2022 میں ماہرنگ غفار نے اسے جعلی انکاؤنٹر میں ہلاک قرار دیا۔ کئی دن تک احتجاج ہوئے اور سڑکیں بند کی گئیں، لیکن حقیقت اس وقت سامنے آئی جب ظہیر بلوچ ایران سے واپس آیا اور پریس کانفرنس میں اپنے زندہ ہونے اور اصل وجوہات بیان کیں۔ یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ “لاپتہ” کا بیانیہ محض ریاست دشمنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

فتنتہ الہندوستان کی تاریخ ایسے ہی جھوٹوں سے بھری پڑی ہے۔ عبدالمالک بلوچ کو بی وائی سی نے لاپتہ ظاہر کیا، مگر وہ بی ایل اے کے اندرونی اختلافات کا شکار ہو کر مارا گیا۔ عبدالودود ساتکزئی اور امتیاز احمد جیسے کئی افراد کو معصوم شہری بنا کر پیش کیا گیا، مگر ان کی حقیقت دہشتگردی کے کیمپوں سے برآمد ہوئی۔ یہ تمام مثالیں اس بیانیے کو واضح کرتی ہیں کہ بی وائی سی اور اس جیسے گروہ صرف جھوٹ، منافقت اور فریب کے ذریعے بلوچ عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

پاکستانی ریاستی ادارے بارہا دنیا کے سامنے یہ شواہد پیش کر چکے ہیں کہ یہ پروپیگنڈا براہِ راست بھارت کی سرپرستی میں چلایا جاتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی بریفنگز میں بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کی مالی، تربیتی اور ابلاغی امداد کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے لا چکے ہیں۔ بھارت نہ صرف ان تنظیموں کو فنڈ دیتا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنوانے، مغربی میڈیا تک رسائی دینے اور انسانی حقوق کے پردے میں پاکستان کو بدنام کرنے کے منصوبے بھی تیار کرتا ہے۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری بھی بھارتی مداخلت کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ ایک حاضر سروس بھارتی نیول افسر کا پاکستان میں پکڑا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ فتنتہ الہندوستان کے پیچھے براہِ راست بھارتی ہاتھ موجود ہے۔ یہ گروہ بلوچ عوام کی غربت اور لاچاری کا فائدہ اٹھا کر انہیں “سرمچار” بناتے ہیں۔ جب وہ پہاڑوں پر جا کر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو انہی کی پراکسی بی وائی سی انہیں لاپتہ قرار دیتی ہے۔ اور جب وہ آپریشنز میں مارے جاتے ہیں تو انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں محمد عثمان قاضی کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ وہ دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ جڑا رہا اور ان کا سہولت کار بھی رہا۔ یہ حقیقت اس بیانیے کو مزید بے نقاب کرتی ہے کہ لاپتہ افراد دراصل وہی ہیں جو خود دہشتگردی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح گلزار امام شمبے، سرفراز بنگلزئی، نجیب اللہ اور عبدالرشید کی پریس کانفرنسز نے بھارتی اسٹیٹ اسپانسرڈ ٹیررازم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ بلوچ عوام اب جاگ چکی ہے اور فتنتہ الہندوستان کے اس فریب کو اچھی طرح سمجھنے لگی ہے۔

اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو لاپتہ افراد کے مسائل میں پاکستان کی پوزیشن نہایت محدود ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کی رپورٹ کے مطابق 2022 تک امریکہ میں 5 لاکھ 21 ہزار سے زائد افراد لاپتہ تھے، بھارت میں ہر گھنٹے 88 لوگ لاپتہ ہوتے ہیں، برطانیہ میں ایک سال میں 1.8 لاکھ افراد، جبکہ میکسیکو، کولمبیا اور نائجیریا جیسے ممالک میں یہ مسئلہ کئی گنا زیادہ سنگین ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی میڈیا ان ممالک پر تو خاموش رہتا ہے مگر پاکستان کو ہدفِ تنقید بناتا ہے۔

پاکستان میں موجودہ اعداد و شمار کے مطابق مسنگ پرسنز کی تعداد 10311 ہے، جن میں سے 8042 یعنی 78 فیصد کیسز نمٹائے جا چکے ہیں جبکہ صرف 2269 کیسز زیرِ التوا ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 2798 ہے جن میں سے 2362 کیسز حل ہو چکے ہیں۔ اس طرح صرف 436 کیسز باقی ہیں، جن میں بھی کئی ذاتی دشمنی، اغواء برائے تاوان، ذہنی مسائل یا بیرونِ ملک قیام کے ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ بیانیہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی سے گوادر اور افغانستان و ایران کی سرحدوں تک بیشتر نام نہاد مسنگ پرسنز دہشتگرد کیمپوں سے برآمد ہوتے ہیں۔ 18 جنوری 2024 کو پاکستان نے ایران کے اندر ائیر اسٹرائیک کر کے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں وہی افراد مارے گئے جنہیں بی وائی سی لاپتہ قرار دیتی رہی۔ یہ واقعات اس فریب کو بے نقاب کرتے ہیں جو بی وائی سی اور دیگر پراکسیز ریاست کے خلاف کھیلتی ہیں۔

لہٰذا یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ ایک سیاسی اور دہشتگردی کا پروپیگنڈا ہے۔ فتنتہ الہندوستان اور ان کی پراکسیز نہ صرف بلوچ عوام کو گمراہ کرتی ہیں بلکہ انہیں اپنے ہی بھائیوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچ عوام خود اس فریب سے نکلے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ان تنظیموں کو مسترد کرے۔ یہ فتنہ زیادہ دیر بلوچ عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتا۔

Facebook Comments Box