مفتی کفایت اللہ، پی ٹی ایم اور پی این جے: دھوکے کا نیا لبادہ

پاکستان کی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی گئی، اس نے بے شمار قربانیوں کے باب رقم کیے۔ ہزاروں فوجی، پولیس اہلکار، اور عام شہری اپنی جانیں نچھاور کر گئے تاکہ ملک کو اس عذاب سے پاک کیا جا سکے۔ لیکن انہی قربانیوں کی گونج کے بیچ ایک نئی سازش جنم لیتی ہے۔ سازش یہ ہے کہ قاتلوں کو شہید بنا کر پیش کیا جائے اور آئینِ پاکستان کو جھوٹا قرار دے کر ایک ایسی شریعت کا مطالبہ کیا جائے جس کی بنیاد خون اور بارود پر رکھی گئی ہو۔

جنوبی وزیرستان میں مفتی کفایت اللہ کا حالیہ بیان اسی سازش کی تازہ قسط ہے۔ انہوں نے ضم شدہ اضلاع میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو ’’شہید‘‘ کہا جو سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ الفاظ صرف ایک تقریر نہیں بلکہ زہر میں بجھا ہوا تیر ہیں، جو نہ صرف آئین کی روح پر حملہ کرتے ہیں بلکہ ان ہزاروں شہداء کی توہین بھی ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا آئین پہلے ہی اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیتا ہے۔ آرٹیکل 2 اور آرٹیکل 227 یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ یہاں کے قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے۔ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل اسی مقصد کے ضامن ہیں۔ اس کے باوجود جب کوئی شخص شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرے تو دراصل وہ آئین کی اسلامی حیثیت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس شریعت کا مطالبہ کر رہا ہے؟

مفتی کفایت اللہ کی مراد وہی خونی نظریہ ہے جو ٹی ٹی پی اور فتنتہ الخوارج نے پھیلایا۔ یہی وہ گروہ ہیں جنہوں نے اے پی ایس پشاور میں معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا، مساجد اور جنازوں پر بم برسائے، اور جرگوں میں پختون سرداروں کو بے دردی سے قتل کیا۔ ان کے اعمال اسلام نہیں بلکہ فساد فی الارض ہیں، جنہیں 2018ء کے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ فتویٰ میں تمام مکاتبِ فکر کے علما نے متفقہ طور پر مردود قرار دیا۔

لیکن مفتی کفایت اللہ نے ان قاتلوں کو ’’شہید‘‘ کہہ کر شہادت کے تقدس کو پامال کیا۔ شہید وہ ہوتا ہے جو دین، وطن اور معصوم جانوں کے دفاع میں قربان ہو۔ یہ اعزاز ان دہشت گردوں کو دینا، جنہوں نے نوے ہزار پاکستانیوں کا خون بہایا، ان ماؤں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے بچے اے پی ایس کے سانحے میں کھوئے۔

اس کھیل میں پی این جے اور پی ٹی ایم کا کردار بھی کم خطرناک نہیں۔ پختون نیشنل جرگہ نے مفتی کفایت اللہ کو اپنے پلیٹ فارم سے خطاب کا موقع دیا۔ بعد میں جب مخالفت بڑھی تو ترجمان برکت آفریدی نے اسے ’’ذاتی رائے‘‘ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ محض ذاتی رائے تھی تو پھر انہیں مدعو کیوں کیا گیا؟ یہی وہ دوغلا پن ہے جو ایسے پلیٹ فارمز کو بے نقاب کرتا ہے۔

پی ٹی ایم کے رہنما عمر پشتین بھی کھل کر دفاع میں آگئے۔ انہوں نے مفتی کفایت اللہ کو پختون حقوق کا علمبردار اور پاکستان کا وفادار بنا کر پیش کیا۔ لیکن یہ وفاداری کیسی ہے جو دشمن بھارت کے خلاف تو کھڑی ہو مگر اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں کو سہارا دے؟ یہ کون سا شریعت کا مطالبہ ہے جو ایک ایسے آئین میں کیا جائے جو پہلے ہی قرآن و سنت کی بالادستی کی ضمانت دیتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ٹی ٹی پی کے اس گمراہ کن ایجنڈے کی بازگشت ہے جو خودکش حملوں اور معصوم خون کے دریا پر قائم ہے۔

ٹی ٹی پی اور ان جیسے گروہ کسی طور آزادی کے سپاہی نہیں بلکہ دشمن طاقتوں کے مہرے ہیں۔ ان کا مقصد پختونوں کی شناخت کا سہارا لے کر انہی کا قتل عام کرنا، ان کے گاؤں اجاڑنا اور ان کی ترقی کو روکنا ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ انہیں خوارج قرار دیتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ ان کی حمایت یا سہولت کاری بھی فساد فی الارض ہے۔

پی ٹی ایم اور پی این جے بار بار ایسے انتہا پسندوں کو جگہ دیتے ہیں کیونکہ ان کی سیاست کی سانس انہی بیانیوں پر چلتی ہے۔ وہ دہشت گردی کو سیاسی رنگ دیتے ہیں، اور پھر اسے آزادیٔ اظہار کا نام دے کر بے گناہ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ پختونوں کے حق میں نہیں بلکہ ان کی بربادی کی ضمانت ہے۔

اصل محافظ وہ نہیں جو دہشت گردوں کو شہید کہیں، بلکہ وہ ہیں جو ان کے خلاف جانیں قربان کریں۔ فوج، پولیس اور ریاستی ادارے وہ حقیقی قوت ہیں جنہوں نے راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کے ذریعے ان علاقوں کو دہشت گردوں کے شکنجے سے آزاد کرایا۔ انہی قربانیوں کی بدولت آج وزیرستان میں اسکول، ہسپتال، بازار اور سڑکیں دوبارہ آباد ہو رہی ہیں۔

پختونوں کی عزت اور ان کا مستقبل کسی فتنہ گر کے بیانیے میں نہیں بلکہ آئینِ پاکستان کے سائے میں ترقی، تعلیم اور امن میں ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پی ٹی ایم، پی این جے اور مفتی کفایت اللہ پختونوں کے ہمدرد نہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں۔

Facebook Comments Box