تحریر۔مولانا محمد اکرم اعوان
آداب رسالت ﷺ کی بنیاد کیا ہے؟سطریں تو دو ہی لکھی ہوتی ہیں لیکن ان کے بیان کے لیے عمر چاہیے ادب آپ کس کو کہتے ہیں؟ اس کا مترادف احترام ہو گا نہایت عجز و انکساری سے اگلے کی بات کو ماننا ادب ہے ہم کہتے ہیں ہم باپ کا ادب کرتے ہیں باپ کہتا ہے یہ کام کرو ہم کہتے ہیں ہم سے نہیں ہوتا تو کیا یہ ادب ہوگا؟ ہم کہتے ہیں ماں کا بڑا ادب کرتے ہیں ماں کہتی ہے مجھے پانی پلادو ہم کہتے ہیںتمہارے ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیںوہ گھڑا پڑا ہے اٹھ کر پی لے اب یہ ادب ہو گا؟ جب ہم کہتے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کا ادب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم پورے خلوصِ دل سے حضورﷺ کی اطاعت کرتے ہیںاگر ہم اطاعت نہیں کرتے تو ادب نہیں کرتے اور آداب رسالت ﷺ بنیاد ہیں ایمان کی جتنا ادب چھوٹ جاتا ہے اتنا ایمان چھوٹ جاتا ہے،اب دیکھیں گے بارگاہ رسالت کے بارے کسی نے فارسی کا شعر کہا تھا
ادب گا ہ ہیست زیرآسمان از عرش نازک تر کہ آسمان کے نیچے عرش سے بھی نازک ادب کی جگہ ہے
نفس گم کردہ می آ یند جنید و بایزید اینجا کہ بارگاہ ِرسالت ﷺ میں حضرت جنید ؒ وبایزید ؒ جیسے عظیم لوگ بھی سانس سادھ کر ،چپ کر کے ،سانس بھی کھینچ کر آتے ہیں۔
میں یہاں پڑھا کرتا ہوں کہ نفس گم کردہ می آیند ابو بکرؓ و عمرؓ اینجا حضرت بایز ید بہت بڑے ہوں گے لیکن کہاں ابوبکر صدیق ؓ ،کہاں فاروق اعظم ؓ اور کہاں اولیاء اﷲ اور واقعی ہی ابوبکر ؓ و عمر ؓ رضوان اﷲ اجمعین سانس کھینچ کر آتے تھے کہ اونچی آواز نکل گئی لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِ (الحجرات 2) نبی ﷺ جس انداز میں ارشاد فرماتے ہیں آپ ﷺ کی آواز سے تمہاری آوازبلند نہیں ہونی چاہیے اگر بلند ہو گئی تو اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ تو تمہارے سارے اعمال ضبط کر لیے جائیں گے،سلب کر لیے جائیں گے وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن اور تمہیں خبر بھی نہیں ہو گی اب جو لوگ اُس وقت بارگاہِ رسالت پناہی ﷺ میں تھے اور جن پر یہ آیت اتری ا س طرح اور ان کی نیکیاں میری آپ کی طرح نہیں تھیں ان کی نیکیاں تھیں کہ انہوں نے مشرکین مکہ کے مظالم سہے ،انہوں نے ہجرتیں کیں انہوں نے بدرو اُحد میں نبی کریم ﷺ پر جانیں نچھاور کیںاحد میں جب کفار کے تیروں کا رخ حضور اکرم ﷺ کی طرف تھا تو صحابیؓ ڈھا ل بن گئے اَب انداز دیکھیں کہ انہوں نے سمجھا کہ سامنے کھڑاہونابے ادبی ہے حضور ﷺ کو تیروں سے بچانا ہے تو آپ ﷺ کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑے ہو کر آپ ﷺ کے اوپر الٹ کر نیچے ہاتھ ر کھ کے آگے آ گئے سارے تیر اُن کی پشت میں پیوست ہوئے لیکن ڈھال بنتے ہوئے بھی آداب نبوت ﷺ کا خیال رکھا کہ سامنے کھڑے نہ ہوں بے ادبی ہے جب ہم آدابِ رسالت ﷺ کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جوحضور ﷺ نے فرمایا وہ ہم نے مانا؟ اَب آگے ماننے کے درجے کھربوں ہیں انسان بھی کھربوں کی تعداد میں گزر چکے، گزریں گے ہر بندے کی کیفیت اپنی ہے ہر بندے کے دل کا حال اپنا ہے ہر بندے کا خلوص اپنا ہے تو آدابِ رسالت ﷺ کی ابتدا اسی بات سے ہوتی ہے کہ ہم نے ارشادِ رسالت سنا قرآن کریم نے اصول بتایا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (البقرہ : 285 ) سُنا اور تسلیم جان میں اتر گیا ،بات ہی ختم ہو گئی ہم نے ایسا ہی کرنا ہے کوئی مشورہ ،کوئی عقلی دلیل ،کوئی خارجی تعاون ،کوئی اور بھی ایسا کر رہا ہے کہ نہیں،کسی کی ضرورت نہیں ادب کا تقاضہ ہے کہ میں نے سنا اور میں تو مان گیاکوئی مانتا ہے یا نہیں ،عقل مانتی ہے یا نہیں، معاشرہ مانتا ہے یا نہیں ، مخالفت ہوگی ،مارپڑے گی ،لو گ باتیں بنائیں گے جو ہوتا ہے ہو،میں نے ماننا ہے تو ادب رسالت پناہیﷺ یہاں سے شروع ہوتا ہے یہ نہیں کہ اذان ہوئی تو انگوٹھے چوم لیے تو ادب ہو گیا یا کہہ دیا میں مسلمان ہوں میں بڑا ادب کرتا ہوں توادب ہو گیاادب کی بنیاد ہے کہ آپ نے ارشادِ پناہی ﷺ سنا اورصدق ِدل سے سلیم کر لیااور اس پر عمل کیایہ پھر جوصدق دل ہے اس میں پھر جتنے لوگ ہیں اتنے مدارج ہیں ہر ایک کا خلوص اپنا ہے ہر ایک کے خلوص کی گہرائی اپنی ہے ہر ایک کی کیفیت اپنی ہے ،تو اب اس کو ہم بیان کرتے جائیں تو زندگی کے ہر مسئلے میں تا دمِ واپسیں بارگاہِ رسالت ﷺ سے وابستہ رہنا ،بھول چوک ہو جائے توبہ کرنا پوری کوشش ،پورے خلوص سے اطاعت کرنا ادب ہے جہاںجہاں چھوٹے گا بے ادبی ہو گی اب آگے آپ اندازہ لگاتے رہیے ہر بندے کا کردار بھی اپنا ہے ہربندے کی کیفیات اپنی ہیں ،خلوص اپنا ہے ہم تو دعا کرسکتے ہیں کہ اﷲ میرے سمیت آپ بھی اور حاضر غائب تمام مسلمانوں کو بھی کیفیات
عطاکرے۔
آداب ِرسالت ﷺ

Facebook Comments Box