پھیلتی ہوئی خاموش ہلاکت

تحریر: نعمان احمد
پاکستان میں آج کل ایک ایسی دہشت گردی پھیل رہی ہے جو بظاہر خاموش ہے مگر اس کے اثرات قتل سے بھی زیادہ تباہ کن ہیں۔ یہ دہشت گردی ہے منشیات کی، جو معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ جہاں قتل ایک فرد کی زندگی ختم کر دیتا ہے، وہیں منشیات ایک پوری نسل کو تباہ کر دیتی ہے۔ یہ نہ صرف جسم کو کھا جاتی ہے بلکہ دماغ، روح اور سماجی ڈھانچے کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، اور یہ ایک منظم جرائم کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ کبھی شراب خانوں کی شکل میں، کبھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آئس (کرسٹل میتھ) کی لت میں، اور کبھی نوجوان طبقے کے لیے چرس، افیون، گٹکا اور ماوا کی صورت میں۔
پاکستان میں منشیات کی لہر کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے۔ حالیہ برسوں میں منشیات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں تقریباً 9 ملین سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں شراب خانے کھلے عام چل رہے ہیں، جہاں نہ صرف الکوحل بلکہ دیگر نشہ آور اشیاء بھی دستیاب ہیں۔ دیہی علاقوں میں چرس اور افیون کا استعمال عام ہے، جو زرعی علاقوں میں کاشت کیے جاتے ہیں اور سمگلنگ کے ذریعے شہروں تک پہنچتے ہیں۔
خاص طور پر تعلیمی اداروں میں منشیات کا پھیلاؤ انتہائی تشویش ناک ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء آئس جیسی خطرناک منشیات کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ آئس، جو ایک مصنوعی نشہ ہے، دماغی صحت کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور اس کی لت سے نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ طلباء جو ملک کا مستقبل ہیں، وہ اس نشے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں، جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں اور خاندانوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پنجاب اور سندھ کی یونیورسٹیوں میں آئس کا استعمال 30 فیصد سے زائد طلباء تک پہنچ چکا ہے۔ یہ نشہ نہ صرف جسمانی کمزوری کا باعث بنتا ہے بلکہ ذہنی امراض جیسے ڈپریشن، شیزوفرینیا اور خودکشی کی طرف لے جاتا ہے۔ نوجوانوں میں گٹکا اور ماوا کا استعمال بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو منہ کے کینسر اور دیگر امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ اشیاء سستے داموں دستیاب ہیں اور سکولوں کے آس پاس فروخت ہوتی ہیں، جو بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی نشے کا شکار بنا دیتی ہیں۔
اس بحران کی جڑیں گہری ہیں اور یہ صرف استعمال تک محدود نہیں بلکہ پیداوار، سمگلنگ اور تقسیم کا ایک پورا نیٹ ورک ہے۔ پاکستان کی سرحدیں، خاص طور پر افغانستان کی سرحد، افیون اور ہیروئن کی سمگلنگ کا مرکز ہیں۔ یہ منشیات ملک بھر میں پھیلائی جاتی ہیں اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ جرائم کی دنیا کو چلاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دھندے کی سرپرستی اعلیٰ سطح پر ہو رہی ہے۔ متعدد کیسز میں پولیس افسران، سیاست دان اور حتیٰ کہ حساس اداروں کے اہلکار ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ سرپرستی نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ جب ریاستی ادارے خود اس میں ملوث ہوں تو عام شہری کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ یہ صورت حال ملک کو ایک ‘نارکو سٹیٹ’ کی طرف دھکیل رہی ہے، جہاں منشیات کی معیشت قانونی معیشت سے بڑھ جاتی ہے۔
منشیات کے اثرات معاشرے پر تباہ کن ہیں۔ یہ نہ صرف صحت کا مسئلہ ہے بلکہ سماجی، معاشی اور اخلاقی بحران بھی۔ نوجوان نسل، جو ملک کی ترقی کا انجن ہے، نشے کی وجہ سے بے کار ہو رہی ہے۔ خاندان ٹوٹ رہے ہیں، جرائم بڑھ رہے ہیں اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ علاج اور بحالی کے مراکز ناکافی ہیں، اور جو موجود ہیں وہ بھی کرپشن کا شکار ہیں۔ منشیات کی وجہ سے ایچ آئی وی اور دیگر متعدی امراض پھیل رہے ہیں، جو صحت کے نظام پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ یہ دہشت گردی ہے کیونکہ یہ ایک فرد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو ہلاک کر رہی ہے۔ قتل تو ایک لمحے کا درد ہے، مگر منشیات کی لت زندگی بھر کی اذیت ہے۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا ہو گا۔ اعلیٰ عہدے داران کی نگرانی کے لیے آزاد کمیشن بنانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات چلائی جائیں اور نشے کی روک تھام کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔ سرحدیں محفوظ بنائی جائیں اور سمگلنگ کے نیٹ ورک کو توڑا جائے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ حکومت کو بحالی مراکز بڑھانے اور علاج مفت فراہم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان ایک تباہ حال ملک بن جائے گا جہاں دہشت گردی کی یہ شکل سب کو نگل لے گی۔
منشیات کو روکنا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شہری کی ہے۔ یہ جنگ ہے جو ہم سب کو مل کر لڑنی ہے۔ اگر ہم نے آج نہیں روکا تو کل ہماری نسل ختم ہو جائے گی۔ یہ دہشت گردی قتل سے بڑی ہے کیونکہ یہ موت کی بجائے زندہ موت دیتی ہے۔ وقت ہے کہ ہم جاگیں اور اس عفریت کا مقابلہ کریں۔ دعا ہے اللہ پاک ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے اور آنے والی نسلوں کو ہر قسم کی منشیات سے محفوظ فرمائے، آمین

Facebook Comments Box