ایک مقولہ ہے کہ ”مال کی ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے“پاکستان میں ہرطبقہ کے لوگوں پر یہ مقولہ بالکل صادق آتا ہے،پاکستان کا ہر بااختیار فرد اپنے اختیار سے اپنے لیے مال بنانے میں لگا ہوا ہے،سرکاری وسماجی اور مذہبی ہرشعبہ کا ہر بندہ صرف ذاتی مال کی خاطر اپنے اختیار،اپنی حیثیت،اپنے علم ونظریات کواستعمال کرکے صرف مال کمانے میں لگا ہوا ہے،پاکستان میں اب تواخلاص سے جان دینے والوں پر بھی شک ہونے لگا ہے کہ کہیں یہ بھی مال ہی کی خاطر تو نہیں مارے جارہے،اللہ معاف فرمائے۔ہمارے پاس اپنے شعور کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے شعورسے دوسروں کومفاد پہنچاتے یا ان کا تختہِ مشق بنتے ہیں۔تقریبازندگی کے ہرشعبے میں ہرپاکستانی ہی اس کے لیے تیار ہے،اوراس حالت سے گزرنے کوترقی پسندی یااعلیٰ شعور سمجھتا ہے،باقی شعبہ جات کو چھوڑ کر صرف علم اور صحت پرغور فرمائیں تو ہمارے بزرجمہر تعلیم صرف انگلش کو سمجھتے ہیں،اوراپنی تیسری نسل کواس دلدل میں دھنسائے بیٹھے ہیں،جس کی وجہ سے ہمارے تعلیم یافتہ انگریز دور کی طرح صرف اس قوم پر حکمرانی ہی کرسکتے ہیں ناکہ قوم کی خدمت۔ اورپھر وہ چندگروہ جن کی تعداد اس قوم میں قلیل ہے،وہ نسل در نسل ہرشعبہ ِ حکمرانی میں براجمان ہیں۔بڑے سے بڑااس ملک وقوم کا ہمدرد بھی انہیں چند لوگوں کے مفادکی خاطر ملک وقوم کے پیسے کو بے دریغ لگا رہا ہے۔ ہر ملازمِ سرکار کی تنخواہ ہردورِ حکومت میں بڑھتی ہے،اختیارات میں اضافہ ہوتا ہے،مراعات بڑھائی جاتی ہیں۔عالمی تعلیمی نیٹ ورک جس قدر پاکستان سے کمارہا ہے،اگراتنا پیسہ اس قوم پر حکومت خرچ کرے توہر بندہ بغیرکام وکاروبار کے خوشحال زندگی گزار سکتا ہے،لیکن اس میں چندفی صد وہ خاندان جولذتِ اقتدارواختیارکے رسیا ہوگئے ہیں ان کی یہ ہوس پوری نہیں ہوسکتی، لہذادن بدن انگلش تعلیم کے فوائدوکرامات گِِنواگِنواکر ہر بھوکے ننگے کو بھی اس کام پرلگا دیا ہے کہ وہ بھی اپنے بچے کو انگلش تعلیم دلوائے،اوراسی آس میں باپ بھوک ننگ میں زندگی بتا جاتا ہے،اوربیٹا پھر بھی مرپٹ کر کہیں چپراسی،چوکیداربن کر زندگی گزارتا ہے۔اس انگلش کی کرامات میں سے ایک بڑی کرامت یہ ہے کہ ہمارا نظامِ صحت سارے کا ساراwhoکے مرہونِ منت ہے،وہ چاہیں توہم پر تجربے کریں، وہ چاہیں توہمارے علاج کے بہانے ہم سے اربوں روپے وصول کریں،ہم بقولِ فارسیاں ”مردہ بدستِ زندہ“ان کے سامنے پڑے ہیں،اورہمارے حکمران جوجمہوریت اوراسلام کے نام کواستعمال کرکے ہمارے اوپرمسلط ہیں،وہ اپنے اختیاری احکام کے ذریعے ان عالمی احکام کو ہمارے اوپر بزور مسلط کرتے ہیں،انہیں یہاں ہمارا جمہوری اور اسلامی حق نظرنہیں آتا،کہ ہم اپنی مرضی سے جس علاج کو چاہیں اس سے استفادہ کریں، اسلام تودین کے بارے میں بھی جبرکرنے سے منع فرماتا ہے،لیکن ہمارے برائے نام مسلمان صاحبِ علم واختیاراورحکومت انسانی حقوق کی آئینی اورمذہبی خلاف ورزی کرکے زبردستی لوگوں پرمسلط کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں تمام سرکاری شعبہ جات جوہیں ان کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ عوام کوجس طرح چاہے روندیں کہ یہ عوام توجانوروں کی طرح ہیں،لیکن یہی عوام جب ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں تویہ انہیں باشعور لگتے ہیں،یہ وہ منافقت ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی عمر کے ستتر سالوں میں ابھی تک بھی انگریزوں کا غلام ہی ہے،خدارااسے آزاد ہونے دیں۔علاج ومعالجہ برازیل (ایمیزون)کے جنگلوں میں بستے قبائل بھی کرتے ہیں،کیا وہ whoکے فارمولے سے کرتے ہیں،اورکیا وہ پاکستان اوریورپ وامریکہ کے عوام سے زیادہ صحت مند نہیں ہیں؟علاج دنیا کے ہرخطے میں ہرطرح سے ہردورمیں ہوتا رہا ہے،اورہرکسی کا اپنا طریقہ ہے،لیکن پاکستان دنیا کاواحد ملک ہے جہاں علاج ومعالجہ کے لیے انگلش تعلیم یافتہ ہونا،اور whoکے عالمی طریقہ علاج ایلوپیتھک کے تابع ہونا ضروری ہے،جبکہ کم ازکم پاکستان میں آج تک موجودہ ایلوپیتھک طریقہ علاج تجربات سے گزررہا ہے، اور حکومتی سرپرستی اورادویات سازوں اور ڈاکٹروں کوکھلی چھٹی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شہری آبادیوں میں اس وقت اکثریت لوگ کسی نا کسی بیماری میں مبتلا ہیں،جوان کی زندگی کی ساتھی بن چکی ہیں،اورلوگ جسے کسی بیماری کے بغیردیکھیں توسوچتے ہیں کہ یہ زندہ کیسے ہے،یعنی پاکستان میں زندگی کی علامت بیماری ہے،دیکھ لیں ہمارے حکمرانوں سے لے کر ہر بااختیار بندے کو کسی نا کسی بیماری کاسائیہ ضرور ہے۔اورپھرایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں کہ اس کا علاج یہاں سے نہیں ہوتا،اوبھائی بیماری جہاں سے آئی ہے علاج بھی تووہاں ہی سے ہوگا نا۔لہذاقوم اور ملک کا درد رکھنے والے بااختیار لوگوں سے اپیل ہے کہ خدارااس قوم کوانگلش کی رسیوں سے باندھ کر ایلوپیتھک کے چھری کانٹوں،گولیوں اور ٹیکوں سے نہ ماریں،انہیں تعلیم اپنی زبان میں دیں، انہیں علاج اپنے طریقوں پرکرنے دیں،اس قوم کی زندگی اس کاوقار اس کی ترقی صرف اسی طرح ممکن ہے،کسی کو ووٹوں سے حکومت مل جانے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ ملک کے مالک بن گئے ہیں،آپ حکمران بننے کے بعد بھی جمہوریت کے تحت عوام کی رائے سے ہی کوئی کام کرسکتے ہیں،یہ اندھا دھند قومی خزانے کو عوام کی ضروریات کے برعکس خرچ کرنا اور پھر عالمی شاطروں کی چالوں کو ناسمجھی کے ساتھ عوام پر ہمدردبن کر مسلط کرنا،یہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد عوام حکمرانوں کے خلاف ہوجاتے ہیں،اور پھرہمدردانِ قوم روتے ہیں کہ ہماراکیا جرم تھا؟ لہذاتمام مروجہ طرقِ علاج جو پوری دنیا میں چل رہے ہیں اورپاکستان میں تقریباًہرطریقہ علاج کی تعلیم و تربیت پرائیویٹ سسٹم علاج کے تحت موجودہے،جس پر پچھلے چندسالوں سے بعض عالمی اداروں یا ngo,s کے مشورے سے فارم 6,،7 کی آڑمیں پابندی لگادی گئی ہے،جس سے وہ ہزاروں معالج جو پرائیویٹ اداروں سے کوالیفائیڈ اور باقاعدہ کام کررہے تھے،انہیں بندکردیا گیا، بلکہ عالمی طور پر چلنے والی ادویات، مثلاً آیورویدک، چائینی ادویات اور الیکٹروہومیوپیتھک کی ادویات کوپاکستان در آمد کرنے پرپابندی لگا دی گئی ہے،جبکہ یہ ادویات انگلینڈ اورامریکہ میں بھی پابندنہیں، یہ کیا ہے صرف صاحبانِ اختیارواقتدارکی مال کی ہوس ہے، جس میں وہ اپنی قوم کوتو بے موت ماررہے ہیں، لیکن عالمی فارماسیوٹیکل کمپنیوں، اورڈاکٹروں کے کاروبار کو زندہ رکھناچاہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس قوم پررحم فرمائے،اوراس کے طبقہ ہائے اختیار واقتدارکو ہوسِ زر کے بجائے قوم وملک کے مفاد کاشعور عطافرمائے آمین۔وماعلی الاالبلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم
کیاعلاج صرف یہی ہے ؟
Facebook Comments Box