بڑے لاٹ صاحب: قابلیت کا رائیگاں سفر

تحریر،عزخ

سرسبز قرینہ اور تدفینی سلیقہ دارالحکومتی قبرستانوں کا حسن ہے۔ جدید سہولیات مہیا اور سرکاری خرچ پر بہم ہوں تو جنازہ وی آئی پی، موت کا منظر دلکش اور سوگ پرکشش ہو جاتا ہے۔ گلابی جاڑے میں سرمئی بادلوں والے ایک روز نئی چمکتی میت گاڑی سے تابوت اتارا گیا۔ پیچھے پیچھے پانچ سات چمچہ نما افراد بھی چمچماتی گاڑیوں میں آئے تھے۔ ان میں چھاتہ تھامے دو ڈھائی عورتیں وغیرہ سی بھی تھیں اور متبسم چہرہ سیاہ خضابی مہنگے سے مولانا صاحب بھی۔ رسم کے اہتمام کی خاطر سب کے لباس سیاہ و سفید رنگ کے تھے اور نئے نکور بھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ نئے سفید سوتی کپڑوں پر شکنیں ادبدا کر ڈالی گئی بلکہ ڈیزائن کی گئی ہیں تاکہ ویڈیو شوٹس میں پریشان فکری اور زود رنجی ابھر آئے۔ نظروں کی ویرانی کو دوآتشہ کرنے کے لئے سیاہ چشمے بھی لگائے گئے تھے۔ البتہ چہرے کے تاثرات چغلی کھا رہے تھے کہ ان میں کوئی ایک بھی خونی رشتہ دار یا دیرینہ واسطے دار نہیں۔ تدفین کے لئے باقاعدہ کمپنی کیٹر اور ہائر کی گئی تھی۔ مارگلہ بریئل سروس؛ آپ کی میت کو دے انوکھا نکھار۔ بریئل باتھ سے لے کر قبر کی بھرائی چُنائی تک کوئیک ون ونڈو سروس۔ گورکن بھی ملازم سرکاری تھا اور دارالحکومت میں ایسے ملتے جلتے مناظر دیکھنے کا عادی، دُور کھڑا رہا۔ گورکن کے پیروں میں قطار سے وی آئی پیز پڑے سو رہے تھے جن میں حکمراں، وزیر، امیر اور صاحب بہادر سب شامل ہیں۔ آج کا جنازہ بھی ایک لاٹ صاحب کا تھا جو ایک عرصہ بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہجوم میں گھرے، حلقۂ اثر کے حامل ایک بڑے لاٹ صاحب۔

بڑے لاٹ صاحب طویل عرصہ قبل سرکاری اعزازات سمیٹے ریٹائر ہوئے اور دس مزید برس حکومتی اداروں میں کنٹریکٹ کنسلٹینسی پر مامور رہے۔ بعد ازاں پرسکون اور خاموش روز مرہ کے عادی بنے سنچری کر ہی چلے تھے کہ نروس نائنٹیز 90 ہو گئے۔ زندگی ملے جلے رنگ لئے گزر گئی۔ صبحیں نیلی، دوپہر روشن تو شامیں سرخ، زندگی روپہلی، کہیں سیاہ و سپید کے مالک تو کہیں تعیناتی کے منتظر، خلوت جلوت مگر ہجوم میں تنہا چلنے کے عادی، گفتگو میں مشاق فاضل مضمون لیکن حل ناکامل، عنوان شناس مگر نتیجہ نشید۔ گو قلم ہاتھ میں لئے رہے مگر سوچ بحق سرکار گروی رکھ دی۔ قرطاس گرویدہ، فائلوں میں مگن اور کام کے دھنی۔ سرخ سیاہی سے فیصلے، سبز روشنائی میں ہدایات، صفحات کے صفحات کالے، نت نئے موضوعات پر مقالے لکھتے ان کی آدرش رنگی کا سَت نکالا جائے تو بڑے لاٹ صاحب کی زندگی سرمئی نکلے گی۔ بڑے لاٹ صاحب بڑے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ یعنی بقول شخصے کسی ”بڑے خاندان“ میں سونے کا چمچہ منہ میں لئے بغیر ہی پیدا ہو گئے تھے۔ محنتی تھے اور ذہین بلا کے ؛نصیب کے دھنی بھی۔ محنت کے ساتھ ذہانت رنگ لائی اور مقابلے کا امتحان پاس کر کے کمشنری لائن میں لگ گئے۔ ابتدائی پوسٹنگز میں تحصیل، وصول و اصول کی دھاک بٹھا دی۔ درمیانی سروس تک نظام اور گُر دونوں کو سمجھ چکے تو نظام گر محکمے میں گرکوں کے گرو بن گئے۔ اسسٹنٹ کمشنر سے ڈپٹی سیکریٹری، ڈپٹی کمشنری‘ ڈی جی وغیرہ، دو انتظامی ڈویژنز کے کمشنر اور بعد ازاں ڈھلتے کیریئر وفاقی سیکریٹری بننے تک ان کی شخصیت لاٹ صاحب سے بڑے لاٹ صاحب میں منتقل ہو چکی تھی۔

دورانِ سروس بڑے لاٹ صاحب نے بے دریغ مال نہیں بٹورا، علاوہ ضرورتاً مقدار کے۔ مراعات کو کافی سمجھا۔ سمجھدار تھے بُرے بھلے کو پس انداز بھی رکھا۔ وہ اپنی طرز کے انسان تھے۔ آدم بیزار ہو گئے تھے مگر آدم خور نہیں۔ انسانیت پرست مگر نسل پرست نہیں۔ گورنمنٹ اسکول و کالج کو حقیر نہیں سمجھتے تھے مگر اپنے بچوں کو بھاری فیس والے تعلیمی صنعتی اداروں سے ڈھالا۔ اختیارات کے عروج پر اپنے زیرنگیں ہسپتالوں اور اسکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی مقدور بھر کوشش کی مگر نتیجہ وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ اسی طرح پرائس کنٹرول اور تجاوزاتی کمیٹیوں کی اپچ سی بخوبی آگاہ تھے۔ زیادہ تر سرکاری کاغذ کا پیٹ بھرتے رہے اور ماتحت عملہ سرکاری کاغذ سے اپنی جیب بھرتا رہا۔ ان کی طبیعت نارنجی تھی۔ زود رنجی، چڑچڑاہٹ پر مسکراہٹ اور دل فریبی کا ملمع چڑھی۔ بڑے لاٹ صاحب کے آدرش بھی اچھوتے تھے۔ مائرز اینڈ برگس پرسنیلٹی انڈیکیٹرز کو چیلنج کرتے۔ یادداشت اور حافظہ کمال تھا۔

آپ نے شادی کے فیصلے میں اتنی ہی دیر لگائی جتنی بغیر نوٹ پہیوں کے سرکاری کیس میں لگتی ہے۔ نکلتی عمر میں اپنے سے آدھے سن والی لڑکی سے شادی کی۔ جب وہ ڈپٹی کمشنری سے فیض یاب ہو چلے تو شادی کمیشن سے رجوع ہوئے۔ اور میڈیکل کالج سے تازہ فارغ التحصیل ناکتخدا کے ہاتھ پیلے کر لائے۔ دنیا سمجھی کہ لاٹ صاحب کی ایک اور لاٹری لگی ہے۔ لگے ہاتھوں سرکاری بیرونی دورے پر ہنی مون بھی نمٹا دیا۔ البتہ واپسی پر مہندی لگے ہاتھوں کو نظرانداز کر کے نوکری کی طرف یوں متوجہ ہوئے کہ دو بچے پیدا ہو کر کب بڑے ہوئے اور بیرون ملک سدھار گئے، کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اسی اثنا میں بیگم پرلوک سدھاریں۔ حاسد الزام دیتے ہیں کہ بڑے صاحب کی نظر اندازی نے ڈاکٹر صاحبہ کی عمر گھٹا دی۔ کچھ عرصہ وہ بیمار رہیں، علاج چلتا رہا۔ اچھے سے اچھے طبیب کا بھی، مگر بڑے لاٹ صاحب کی شخصی عدم توجہی برقرار رہی۔ بیگم صاحبہ کو اندر ہی اندر گھن کھا رہا تھا۔ ریٹائرمنٹ سے تین سال قبل ایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ ہی وہ معزول کیے گئے ؛ شاید سیاسی شخصیت کی ہٹ پر۔ اس دوران انہوں نے بیگم پر توجہ دینا شروع کی مگر جب تک کھیت چُگا جا چکا تھا۔ دورانِ فراغت بھی وہ اپنی سروس اور کی گئی زیادتی کا ذکر جاری رکھتے تو بیمار ڈاکٹر بیگم درخور اعتنا نہ جانتیں۔ ادھر بڑے لاٹ صاحب بحال ہوئے ادھر بیگم صاحبہ نڈھال ہسپتال اور ملک عدم اُڑنچُھو روانہ۔

بڑے لاٹ صاحب علت و معلول کے آفاقی اُصول پر عمل فرما رہے نیز تعلقات کے پھیلاؤ اور ترک تعلقات کے معاملے میں ہمیشہ سرکاری سرکاری سے رہے۔ دراصل وہ ایسے نہیں تھے۔ بڑی مشکل سے زمانے نے انہیں خود سے جُدا کیا تھا۔ عہدِ نوجوانی میں مقابلے کے امتحان کی بنیاد پر نوکری چڑھنے اور تعیناتی پر پورے خاندان میں شادیانی کے ڈونگرے بجے۔ کچھ واسطے داروں کے لئے تو ہنگامۂ شادیٔ مرگ تھا۔ بیگانے کی شادی میں شہر بھر کے عبداللہ دیوانے بنے پھرتے تھے۔ ٹھیکیدار، دفاتر کے آڑھتی اور ابن الوقت ابتدائی سروس میں چُن چُن کر ان کے پاس طرح طرح کے کام لاتے تھے۔ ظاہر ہے یہ سو فیصد ناجائز اور ضوابط کے خلاف ورزی کے کیسز تھے اور بڑے لاٹ صاحب (اس وقت نئے نئے صاحب) حد درجہ محتاط۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور ناشناسائی ’نا رضامندی اور دوری بڑھتی رہی۔ اس نا رضامندی میں آڑھتی ٹھیکیداروں کی ناراضگی خارج الامکان تھی کہ وہ چھکا لگنے کے منتظر رہتے تھے۔ لاٹ صاحب کو ادراک ہو چلا تھا کہ شارٹ کٹ چپڑ قناتیے کسی قیمت پر دل گرفتہ نہ ہوں گے۔ تقسیم کے بعد سے لُوٹا ماری، لوٹا زنی اور بندر بانٹ کا جو چسکا ان دلالوں کو پڑ چکا تھا، حمیت اور عزت نفس نام کی کوئی چڑیا اس میں پر مارنے کی مجال نہ رکھتی تھی۔ لائسنس، پرمٹ، الاٹمنٹ، کلیم، قبضے اور قانون شکنی مرغوب عام تھی۔ لاٹ صاحب نے حتی الوسع اپنا دامن بچانے کی خاطر شلوار قمیص کی بجائے پینٹ شرٹ زیب تن کیے رکھا کہ شرٹ پتلون کے اندر۔ نہ دامن دراز ہو گا نہ داغ دکھے گا۔ دو تین حرام الدہر وچولے رطب اللسان پھر بھی شیشے میں اتار گئے۔ بڑے لاٹ صاحب لولاک ہونے کے ساتھ صاحب ادراک بھی تھے۔ زمانہ حاضر کی علتوں کے علاوہ مستقبل آفرینی بھی زیر نظر رہی۔ سرکاری تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے؟ نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں جاوید میانداد کی بیٹنگ کی طرح نپے تلے شاٹس کھیلتے رہے۔ آہستہ آہستہ ٹرپل سنچری بھی کر جاتے مگر 280 پر ریٹائرڈ ڈیکلئر کر دیے گئے۔ ہینگ پھٹکری کے بغیر رنگ آ گیا۔ تاہم ان کا سماجی حلقہ دن دوگنی اور رات چوگنی تنزلی کی منازل طے کرتا حد درجہ محدود ہو چلا۔

دارالحکومت کے اچھے سیکٹرز میں سرکار نے انہیں 3 سے چار پلاٹ عطا کیے تھے۔ ایک پر مکان تعمیر کر کے رہائش اختیار کرلی۔ ایک بیچ کر بچے کو تعلیم کے لئے باہر بھیج دیا۔ یاد رہے، غیر ملکی سفارت خانوں سے رابطہ یا تعلیمی وظیفے کی طمع پلنے نہ دی۔ دیگر خواہشات بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات کے تناسب میں رکھیں۔ نوکری کے بعد بھی ہر روز علی الصبح اٹھتے، باغیچے میں حتی المقدور کسرت کے بعد کوٹ ٹائی لگا کر گھر کی اسٹڈی میں دفتر سجاتے۔ سب سے پہلے پی اے صاحب ( پرانا ریٹائرڈ جو ان کے ساتھ نوکری کرچکا تھا) اندر آتا اور روز مرہ کے کاموں کی خواہ مخواہ مرتب کردہ فہرست گوش گزار کرتا۔ بڑے لاٹ صاحب ای بینکنگ سے کبھی مانوس نہ ہو سکے تاہم ای میل بہ امر مجبوری چلانا سیکھ چکے تھے۔ فہرست میں بنک چیک، گھریلو بلز کی ادائیگی، روز مرہ ڈاک، انٹرنیٹ سے بین الاقوامی اور اقتصادی امور پر شائع شدہ مضامین سے کٹ پیسٹ، اخبارات اور رسائل کو ہائی لائٹر سے مارک کر کے ترتیب سے رکھنا اور ان میں اہم جزو پر پیلی گلابی چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں لگانا شامل تھا۔ دو مہینے میں ایک یا دو بار بڑے صاحب کو شہر سے باہر جانا ہو تو ذرائع نقل و حمل کے تمام دستیاب ذرائع پر مفصل بحث اور بالکل آخر میں بڑے صاحب کا ذریعہ سفر کا انتخاب بھی کافی وقت اور دِقّت آمیز رہا کرتا تھا۔

آخری ایام میں نقاہت نے بڑے لاٹ صاحب کو صاحب فراش کر دیا تھا۔ وہ بستر پر دراز اکثر سوچا کرتے کہ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔ قدرت نے انہیں کھلے ہاتھ نوازا۔ قسمت مہربان رہی۔ مگر بڑے لاٹ صاحب تذبذب کا شکار رہے کہ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ مصلحت اندیشی اور کوتاہ بینی ان کی دائمی کم زوری رہی جس کے باعث کوئی بنیادی تبدیلی اور انقلاب ہمیشہ خواب بنا رہا۔ ایک متوسط بلکہ زیریں متوسط گھرانے سے صاحب حکم تک کے اس عبث سفر میں وہ راہ نورد شوق ضرور تھے مگر منزل ان سے کوسوں دور کھنچی رہی۔ ان کی متاعِ حیات مادی اور بے معنوی الجھنوں سے پیچے لڑاتی رہی۔ بحیثیت نوجوان افسر وہ خوشامد کرنے والوں کو پہچان لیا کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ اس ٹولے کے دام فریب کا شکار ہو گئے۔ کب اور کس طرح انہیں پتہ ہی نہیں چلا۔ انہیں خود کو کامیاب اور صاف کردار بیوروکریٹ کہلوانے کا ازحد شوق تھا۔ وہ اپنی سوانح لکھنے یا لکھوا لینے کے متمنی بھی رہے مگر تقدیر نے اتنی مہلت نہ دی۔

اردو میڈیم تقریری مقابلوں بیت بازی اور معلومات عامہ کے مقابلوں سے بین الاقوامی تعلقات عامہ اور قومی مسائل پر ان کے سرکاری مسودے بے سود اور بے نتیجہ ہی رہے۔ ان کی آخری خواہشات میں اسکول بریک میں اچار پراٹھا، نیاز کے چاول، تانگہ سواری اور ریلوے قلی کو مٹھی بھر بخشش دینا تشنہ تکمیل رہیں۔ وہ جب بھی ہوائی سفر کرتے اور ان کی رضامندی سے اسٹاف افسر ٹرالی پورٹر کو لفافے میں بڑے نوٹ پکڑاتا تو سرخ میلی قمیص میں ریلوے قلی کا پسینے میں شرابور سراپا ضرور ابھر آتا، عرصہ قبل جس سے وہ بھاؤ تاؤ کر کے اپنا سوٹ کیس نشست کے ساتھ رکھواتے۔ اس وقت ان کے پاس رقم نہ تھی اور اب ازالے کا وقت نہیں رہا۔ قبرستان میں وی آئی پیز کی قبریں یوں سیدھی قطار میں ہوں جیسے ٹرین بوگی میں برتھیں۔ ان کی نشست محفوظ تھی تابوت الاٹڈ نمبر برتھ کے حوالے ہوا مگر اب نہ سامان کا تردد رہا اور نہ قلی پورٹر کی بخشش۔ ان کی بخشش و مغفرت کے ساتھ رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments Box