تحریر۔نظام الدین
کچھ عرصے پہلے امریکی دی اکنامسٹ میگزین کے سرورق پر امریکی قومی نشان “شاہین” پرندے کی رسیوں سے بندھی تصویر شائع ہوئی جو اس بات کی علامت ہے کہ امریکا کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ہیں
کیوں ؟؟؟ کیونکہ جس طرح صہیونی مقتدرہ نے امریکا کو اپنے شکنجے میں قید کر کے ساری عالمی طاقتوں کو اپنے خلاف کوئی فیصلہ لینے سے بے بس کر رکھا ہے،
جس کی مثال ہے” اسرائیل اپنے قیام سے اب تک فلسطین پر قبضہ ، غزہ میں قتل عام کے ساتھ ایران پر حملہ کرکے پوری دنیا غمسلم ممالک کو للکار رہا ہے ، اور کسی میں اتنی جرات نہیں جو اسرائیل کا ہاتھ پکڑ سکے ، حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکا اسرائیل سے فائر بندی کا بھی نہ کہہ سکا ،
جبک اسرائیل سے بڑے ممالک ہندوستان پاکستان ٹرمپ کی ایک دھمکی سے جنگ سے پیچھے ہٹ گئے تھے؟
دراصل صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دیگر امریکی صدروں کی طرح صیہونیوں کی بچائی بساط کا ایک مہرہ ہے ،
کیونکہ اس کا ریپبلکن پارٹی کا ممبر ہونا ہے ، جس کی اکثریت ایوانجلسٹ فرقے سے تعلق رکھتی ہے جو نظریاتی طور پر یہودی صہیون کی طرح اپنی قوم پر کسی بھی نظریے اور نسل کی برتری تسلیم نہیں کرتے ۔
بنسبت عام کیتھولک عیسائیوں کے یہ لوگ امریکی مہاجروں اور مسلمانوں سے اس لیے بھی نفرت کرتے ہیں کیوں کہ امریکی مہاجروں کی اکثریت یہود مخالف اور ڈیموکریٹ کے لبرل سیکولر نظریے کی حامی ہوتی ہے
ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی روس اور یوکرین کے مسئلے کو لے کر سعودی عربیہ میں جو بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھاکہ روس کو کسی طرح کچھ وقت دے کر یوکرین کے جال سے باہر نکلا جاۓ تاکہ 2016 میں جس طرح اسلامی ملیشیاؤں سے عرب حکمرانوں کو نجات دلانے میں امریکہ اور روس دونوں نے اہم کردار ادا کیا تھا ایک بار پھر یہ دونوں طاقتیں مشرق وسطی میں اپنی توجہ مرکوز کریں یا امریکہ اور اسرائیل صرف مشرق وسطی کے ایک محاذ پر ہی مستقل توجہ دے سکیں
ٹرمپ نے شاید اسی منصوبے کے تحت پوتین سے یوکرین کے مسئلے پر بات کرنے کے لئے کسی عیسائی ریاست جیسے کہ اٹلی برطانیہ یا جنیوا کا انتخاب کرنے کی بجاۓ سعودی سرزمین کا انتخاب کیا کیوں کہ یوکرین کا محاذ بند ہونے میں روس اسرائیل اور عرب تینوں کا مشترکہ مفاد شامل ہے ۔
بھلا ہو زیلیسکی اور یوروپ کا جو ٹرمپ اور پوتین دونوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہوۓ ۔ٹرمپ پر اعتماد نہ کرنے کی ایک معقول وجہ بھی ہے کہ امریکہ میں ابھی تک ریپبلیکن کے جتنے بھی صدر منتخب ہوۓ ہیں وہ ذہنی طور پر بہت ہی جارح غیر مہذب اور جلد باز رہے ہیں ۔مثال جارج بش اؤل اور دوئم کی بھی دی جاسکتی ہے جنہوں نے 9/11 کے بعد پورے یورپ کو جس میں یوکرین بھی شامل تھا افغانستان اور عراق کی جنگ میں جھونک تو دیا لیکن نتیجہ صفر رہا ۔
ریپبلیکن کا ایک صدر نکسن بھی تھا جس نے ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دوران دونوں ممالک کو دھوکہ میں رکھا تھا ۔اس کے برعکس ڈیموکریٹ سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر وہ چاہے جان ایف کینیڈی ہو کہ کلنٹن یا اوبامہ یا جو بائیڈن ریپبلکن صدور کی طرح جارح اور غیر مہذب اور جلد باز نہیں رہے ہیں ۔انہوں نے تیسری دنیا کے ممالک اور ان کے سربراہان کے لئے دھمکی آمیز یا بدتمیزی والا لہجہ کبھی نہیں استعمال کیا ۔اب یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی صدر ٹرمپ کی طرح کسی اسرائیلی وزیراعظم کی کرسی نہ بھی سیدھی کرے تو بھی اسرائیل کے کسی سربراہ کو
“جنگ بند کرو” کہنے کی جرات نہیں کر سکتا جیسا کہ ٹرمپ کے اسی جملے سے ڈر کر ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے چند گھنٹوں میں ہی اپنے میزائلوں کو “اسٹاپ “کر دیا ،
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی صدر فلسطین کے معاملے میں اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مخالفت کبھی نہیں کرسکتا ۔اسرائیلی ایجنسیاں امریکی سیاست میں اتنے اندر تک گھس چکی ہیں کہ وہ اپنے خلاف کسی بھی امریکی صدر کی ممکنہ جارحیت کا بھر پور جواب دینے کی طاقت رکھتی ہیں ۔
جیسا کہ امریکہ کے چار صدر نے جب اسرائیل کے خلاف اپنی جرات دکھائی تو ان کا کیا حشر ہوا ۔بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ قوم انبیاء کرام کی بھی قاتل رہی ہے ۔
اسی طرح جو لہجہ ٹرمپ نے مملکت سعود کے خلاف استعمال کیا اب کے سعودی حکمراں شاہ فیصل کی طرح ان کا منھ توڑ جواب نہیں دے سکے تو اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ یہ حکمراں شاہ فیصل کا حشر دیکھ چکے ہیں ۔
عرب شاہوں کی یہی وہ کمزوری ہے جسے ٹرمپ نے پہچان لیا ہے ۔جیسا کہ وقتی طور پر اس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کروایا بھی اور یہ معاہدہ ٹوٹ بھی گیا اور پھر اپنے عرب دورے سے قبل ٹرمپ نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے اور جنگ بندی کے معاہدے کا لالچ دے کر یرغمالیوں کو رہا بھی کروا لیا اور عرب کے شاہوں سے چار ٹریلین ڈالر بھی لوٹ کر لے گیا ،
“بہرحال” ہونا تو یہ چاہیے تھا عرب ممالک اپنی دولت ٹرمپ پر نچھاور کرنے کے بجائے اپنی ہمہ جہت عسکری مضبوطی اور مسلم دوست ممالک کے لیے استعمال کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا کیونکہ موجودہ ایران اسرائیل جنگ میں آگر ایران کی اور ان کے دوست ممالک کی طاقت ختم ہوتی ہے تو پھر کل وہ خود اپنا قتل عام نہیں روک سکیں گے ،،،