اصلی ایپنک نقلی ایپنک


تحریر۔نظام الدین

مارننگ اسپیشل اخبار سے وابستہ صحافی دوست نے ایک خبر اور ویڈیو مجھے بھیجی جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڈ ایک اجلاس میں آل پاکستان نیوز پیپرز اینڈ الیکٹرانک میڈیا ایمپلائز کنفیڈریشن ایپنک” کے نو منتخب عہدیداران سے حلف لے رہے ہیں، اور خبر یہ تھی کہ ایپنک” کے انتخابات چیف الیکشن کمیشن و سینیٹر محمد طلحہ محمود کی نگرانی میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد سال 27-2025 کے لیے منعقد ہوئے اورخادم اڈیشنل سیکٹری جنرل منتخب ہوگیا ہے؟
اس خبر کی تصدیق جنگ اخبار سے وابستہ ایپنک”ایوارڈ کے لیے منتخب ہونے والے دوست سے کی تو انہونے آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن ایپنک” کے مشترکہ اجلاس کی ایک خبر ارسال کردی جس کے تحت ایپنک” کےآئندہ انتخابات کا انعقاد 16نومبر 2025ءکو کراچی پریس کلب میں منعقد ہونگے اور اس کے ساتھ انہوں نے اسلام آباد میں منعقد انتخابات کو جعلی قرار دے دیا ؟
یہاں سوال یہ ہے کہ جس ایپنک” کے اجلاس کی صدارت اور منتخب عہدیداران کی حلف برداری وزیر اطلاعات اور دیگر حکومتی اراکین کررے ہوں وہ جعلی کیسے ہوسکتے ہیں؟
اوراب جب ایپنک” کے انتخابات منعقد ہوچکے توکراچی پریس کلب میں ہونے والے انتخابات اصلی کیسے ہوسکتےہیں؟ اور وہ پریس کلب جس کو سندھ حکومت کروڑوں روپے سالانہ گرانٹ دیتی ہے وہ مالی امداد پریس کلب کی سرگرمیوں کو سہارا دینے اور اس کے قیام کو مستحکم رکھنے کے لیے دی جاتی ہے، تاکہ صحافیوں کو ایک مستحکم پلیٹ فارم فراہم کیا جا سکے، جہاں وہ اپنے کام کو بہتر انداز میں انجام دے سکیں۔ مگر کراچی پریس کلب کے عہدیداران اس مقصد کو پورا کرنے کے بجائے، اخبارات و چینلز کے سرمایہ داروں کو،چھوٹے اور کمزور صحافتی تنظیموں کو بلیک میل کرنے اور ڈرانے کے لئے پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں، یہ کتنی افسوس ناک اور شرم ناک بات ہے کہ اسی شہر قائد میں صحافیوں کے نام پر دہائیوں سے قائم ادارہ حکومت سے سالانہ کروڑوں روپے کی گرانٹ لینے کے باوجود صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کرتا اور اس کے بے شمار ممبران کو نہایت کسمپرسی کے عالم میں موت کے منہ میں جاتے کیا ہم سب نے نہیں دیکھا ہے ؟
“آڈٹ بیورو آف” سرکولیشن (ABC) حکومت پاکستان کے مطابق 2025 تک ملک بھر میں شائع ہونے والے قومی اور علاقائی اخبارات و جرائد کی کل تعداد840 ہے جن میں سینکڑوں صحافی اور دیگر مددگار ملازمین خدمات انجام دے رہے ہیں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران قومی اخبارات و جرائد نے تو منافع بخش اشتہارات اور بلیک میلنگ کے ذریعہ بھاری بھرکم کمائی کے بدولت نت نئے کاروبار اور اداریے قائم کرکے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے فرش سے عرش پر پہنچ گئے۔ لیکن افسوس ان اخبارات اور جرائد کو شب و روز اپنے خون پسینے سے سینچنے والے شب و روز کی محنت کی بدولت انہیں شہرت اور عروج کی بلندیوں تک پہنچانے والے صحافی اور عملہ آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے جبکہ ملک کے تمام اخبارات و جرائد پر ایک اہم قانون “صنعتی آرڈیننس 1969کا اطلاق ہوتا ہے، مگر قومی اخبارات و جرائد میں اس قانون پر سرے سے کوئی عمل در آمد نہیں کیا جاتا صحافیوں اور عملہ کے روزگار کے حقوق کا تحفظ کرنے والی ٹریڈ یونینیں بھی قصہ پارینہ بن چکی ہیں جس کے نتیجہ میں ذرائع ابلاغ کے طاقت ور مالکان اپنے ملازمین سے سخت غیر منصفانہ برتاؤ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ملک میں پرنٹ میڈیا کی صنعت کی صورت حال کا ایک بدترین پہلو یہ ہے کہ صنعت پرنٹ میڈیا میں ایک طویل عرصہ تک خدمات انجام دینے والے سینکڑوں صحافیوں اور دیگر عملہ کو کھڑے کھڑے زبانی طور پر اخباری مالکان اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ان کے جائز واجبات بھی روک لیتے ہیں اور انہیں عمر کے آخری حصہ میں بے روزگاری کی دلدل میں تنہا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ بیروزگاری کے عفریت کی اس تشویشناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بیشتر صحافیوں کو اپنا اور اپنے گھرانے کا پیٹ پالنے کے لئے چھوٹی موٹی ملازمتیں شروع کرنا پڑگئیں اور بعض نے اپنے یو ٹیوب چینلز قائم کرکے اسے اپنا معاشی وسیلہ بنالیا ۔جبکہ دوسری جانب اٹھتے بیٹھتے صحافیوں کی فلاح و بہبود کا دم بھرنے والی صحافیوں کی مقامی اور ملک گیر انجمنوں نے ذرائع ابلاغ کے ظالم طاقت ور مالکان کی جانب سے سینکڑوں صحافیوں اور عملہ کی برطرفیوں کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف سنجیدگی سے قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے محض مذمتی بیان بازی
احتجاج اور مظاہروں تک خودکو محدود رکھا ہوا ہے ،
جبکہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد سے ہی حکومت پاکستان اخبارات و جرائد میں خدمات انجام دینے والے صحافیوں اور عملہ کے حقوق کے تحفظ کےلئے بیحد موثرقانون سازی متعارف کراچکی تھی جس کے تحت اگست1973 میں صحافیوں کی
(شرائط ملازمت) آرڈیننس 1960 کو منسوخ کرکے بعض ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ اخباری ملازمین اور عملہ کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک نیا قانون اخباری ملازمین ایکٹ مجریہ 1973ء وضع کیا گیا تھا اور اس قانون کو 11 اگست 1973 کو ملک بھر میں فوری طور پر نافذ کیا گیا تھا ۔اس ایکٹ کا اصل مقصد صحافیوں کی اجرت کی شرح مقرر کرنے کے لئے ایک ویج بورڈ کا قیام بھی تھا۔ ویج بورڈ کے فیصلہ کو موثر عملدرآمد فراہم کرنے کے لئے صنعتی آرڈیننس1969 پاکستان صنعتی اور تجارتی ملازمت
(اسٹینڈنگ آرڈرز) 1968 اخباری ملازمین و اخباری اداروں پر اطلاق اور ان کی ملازمت کو تحفظ بخشنے کے لئے اوقات کار اور طبی نگہداشت وغیرہ کے لئے اس بل کو یکم اگست1973 کو قومی اسمبلی میں متعارف کرایا گیا تھا ۔ یعنی” اخباری ملازمین ایکٹ مجریہ1973
ایکٹ نمبر LVIII آف
11 اگست، 1973-
ہرگاہ یہ امر قرین مصلحت ہے کہ اب آرڈیننس 1960 کو منسوخ کر کے عالمی سطح پر میڈیا کے لیے بنائے قوانین نافذ کیے جائیں ، اس امر سے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اخبار کی صحافت کے “سنہری دور” مکمل واپس آجائیں ، جیسا کہ ڈیجیٹل دور سے پہلے تھے “کیونکہ اب خبریں حاصل کرنے کے ذرائع اور صارفین کی عادات مطالعہ بہت بدل چکے ہیں ۔ تاہم، اخبار کی صحافت کی اہمیت اور اثر کو دوبارہ زندہ کرنےاوراسے برقرار رکھنے کے کئی طریقے ہیں، جن میں جدت اور معیار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے
ایسی خبریں اور مواد فراہم کرنا جو سوشل میڈیا یا فوری آن لائن خبروں پر دستیاب نہ ہوں۔ یعنی سنسنی خیزی کے بجائے گہری، تحقیقاتی، اور تجزیاتی صحافت کو ترجیح دینا۔ مقامی سطح پر ایسی گہرائی اور تفصیل فراہم کرنا جو بڑے قومی یا بین الاقوامی میڈیا کے لیے ممکن نہ ہو۔ مقامی صحافت کو مضبوط بنانا، روزانہ کا اخبار ہونے کے بجائے، اخبارات ہفتہ وار یا ماہانہ پریمیم ایڈیشن نکالنا جو گہرا تجزیہ، بہترین ڈیزائن، اور جمع شدہ رپورٹنگ پر مشتمل ہو، خبروں کی فراہمی میں آگمینٹڈ ریئلٹی ویڈیوز اور انٹرایکٹو گرافکس کو پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ جوڑنا۔ اشتہارات کے بجائے قارئین کی براہِ راست مالی مدد پر زیادہ انحصار کرنا۔ جس سے صحافت کی آزادی بھی برقرار رہے گی- موضوعاتی ایونٹس، سیمینارز، اور کانفرنسز منعقد کرنا، جو اخبار کی برانڈ ویلیو اور آمدنی میں اضافہ کرئے گا ، جہاں امیر افراد فلاحی ادارے اور حکومت تحقیقاتی صحافت کے لیے فنڈز فراہم کریں اس سے صحافیوں کو بہتر تنخواہ، کام کے بہتر حالات اور ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت فراہم ہوسکے گی نوجوان باصلاحیت افراد اس شعبے کی طرف راغب ہونے لگیں گے صحافیوں کو صرف لکھنے یا رپورٹنگ کے بجائے ڈیٹا تجزیہ، ویڈیو گرافی اور آن لائن مارکیٹنگ جیسی مہارتوں سے بھی لیس ہونا چاہیے۔اخبار کی صحافت کا مستقبل اس بات میں نہیں ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا سے مقابلہ کرے، بلکہ یہ کہ وہ خود کو ڈیجیٹل دور میں معیاری، معتبر اور گہری رپورٹنگ کا ایک منفرد ذریعہ بنیں چاہے وہ پرنٹ کی شکل میں ہفتہ وار میگزین ہو یا آن لائن پریمیم مواد۔ کاغذ کا دور شاید واپس نہ آئے، مگر اعتماد اور معیار کی صحافت کا دور ضرور واپس آسکتا ہے۔،

Facebook Comments Box