تحریر: نعمان احمد
کراچی، پاکستان کا معاشی مرکز اور سب سے بڑا شہر، ہمیشہ سے ہی امیدوں اور خوابوں کا مرکز رہا ہے۔ لیکن آج کل یہ شہر ایک نئی قسم کی افراتفری کا شکار ہے۔ مختلف دیہی علاقوں، گاؤں اور دیہات سے لوگ اپنے جاگیرداروں اور وڈیروں کی ظلم و ستم سے تنگ آکر، غربت، بے روزگاری اور فاقہ کشی کی وجہ سے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں feudal system اب بھی غالب ہے۔ جاگیردار اور وڈیرے اپنے علاقوں میں بادشاہوں کی طرح حکمرانی کرتے ہیں۔ کسان اور مزدور ان کی غلامی میں جکڑے ہوتے ہیں۔ ظلم و تشدد کی داستانیں عام ہیں: زمینی تنازعات، جبری مشقت، جنسی استحصال اور حتیٰ کہ قتل۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر شہروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے دیہی علاقوں سے ہزاروں لوگ ہر سال کراچی آتے ہیں۔ یہ نقل مکانی نہ صرف افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ شہری معاشرے پر بھی بوجھ ڈالتی ہے۔
کراچی پہنچنے پر یہ لوگ شہر کے مضافاتی علاقوں میں جھونپڑی پٹیاں بناتے ہیں۔ لیاری، اورنگی ٹاؤن، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی بستیاں پھیل رہی ہیں۔ یہاں پانی، بجلی اور صفائی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگ سڑکوں، ٹریفک سگنلز اور مزاروں پر بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں۔ لیکن جب بھیک سے گزارہ نہیں ہوتا تو وہ جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں موبائل اسنیچنگ، چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پولیس رپورٹس کے مطابق، کراچی میں روزانہ سینکڑوں موبائل فون چھینے جاتے ہیں، اور یہ کام زیادہ تر انہی بھکاری گروہوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جو منظم ہو چکے ہیں۔
یہ رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟ اس کی بنیادی وجوہات غربت اور عدم مساوات ہیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔ لوگ ناخواندہ ہوتے ہیں اور ہنر سے محروم۔ شہر میں نوکریاں ملنا مشکل ہے، خاص طور پر غیر ہنر مند افراد کے لیے۔ کراچی کی آبادی 30 ملین سے زیادہ ہے، اور بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے اوپر ہے۔ یہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ امیر لوگ لگژری گاڑیوں میں گھومتے ہیں تو حسد اور مایوسی انہیں جرائم کی طرف دھکیلتی ہے۔ مزید برآں، منظم جرائم پیشہ گروہ ان بھکاریوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ پولیس کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ موبائل اسنیچنگ میں موٹر سائیکل سوار نوجوان شامل ہوتے ہیں جو تیزی سے حملہ کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔
عوام کی جان، مال اور عزت خطرے میں ہے۔ کراچی کے مکین روزانہ خوف میں جی رہے ہیں۔ بازاروں، بس اسٹاپس اور سڑکوں پر لوٹ مار عام ہے۔ عورتیں اور بچے خاص طور پر متاثر ہیں۔ ایک حالیہ واقعہ میں، ایک بھکاری گروہ نے ایک خاتون کا پرس اور موبائل چھین لیا اور مزاحمت پر اسے زخمی کر دیا۔ ایسے واقعات سے معاشرتی امن تباہ ہو رہا ہے۔ کاروبار متاثر ہو رہے ہیں، اور سیاحتی سرگرمیاں کم ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ صرف ان بھکاریوں کی غلطی ہے، یا نظام کی ناکامی؟
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ ان گروہوں پر کریک ڈاؤن کرے۔ لیکن افسوس کہ کرپشن اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پولیس ناکام ہے۔ سندھ حکومت نے کئی بار “بھیک مافیا” کے خلاف آپریشن کیے، لیکن یہ عارضی ہوتے ہیں۔ مستقل حل کے لیے دیہی علاقوں میں اصلاحات ضروری ہیں۔ جاگیرداری نظام کو ختم کیا جائے، زمینی اصلاحات کی جائیں اور کسانوں کو حقوق دیے جائیں۔ تعلیم اور ہنر کی تربیت کے پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ لوگ دیہی علاقوں میں ہی رہ کر روزگار کمائیں۔
غیر سرکاری تنظیمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ وہ جھونپڑی پٹیوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ بھکاریوں کی بحالی کے لیے مراکز قائم کیے جائیں جہاں انہیں ہنر سکھایا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کرے اور عوام میں شعور پیدا کرے۔ عوام خود بھی ذمہ دار ہیں وہ بھیک دینے کی بجائے مستحق اداروں کو عطیات دیں تاکہ بھیک کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔ عدالتی نظام کو تیز کیا جائے تاکہ مجرموں کو فوری سزا ملے،
یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے۔ اگر ہم نے ابھی اقدامات نہ کیے تو جرائم کی لہر مزید پھیلے گی۔ حکومت، پولیس، NGOs اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ان بھکاریوں کو لگام دینے کا وقت آ گیا ہے، ورنہ معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ اس یقین کے ساتھ کہ مستقبل میں کراچی ایک محفوظ اور خوشحال شہر بنے گا جہاں ہر شخص عزت کی زندگی گزار سکے۔ آمین،
افراتفری کی لپیٹ میں
Facebook Comments Box