کراچی کی گرتی دیواریں، مٹتی پہچان اور تباہ ہوتا فطری حسن

تحریر،دودو چانڈیو

لیاری میں حالیہ گرنے والی عمارت نے ایک بار پھر کراچی میں جاری بلڈر مافیا کی بے لگام سرگرمیوں اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کی نا اہلی کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک حادثہ نہیں تھا۔ یہ اُس نظام کا شاخسانہ ہے جو دہائیوں سے اس شہر کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

کراچی کا المیہ صرف یہ نہیں کہ یہاں غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ یہ شہر آہستہ آہستہ اپنی شناخت، اپنی تاریخ، اپنا ماحول اور اپنا جمالیاتی توازن کھو رہا ہے۔

بلڈر مافیا: شہر دشمن منافع خور طبقہ

کراچی کے تقریباً ہر علاقے میں چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر بغیر اجازت نامے اور حفاظتی معیارات کے، کثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں۔ ان عمارتوں کی بنیاد کمزور، میٹریل ناقص اور نقشہ جعلی ہوتا ہے۔ صرف منافع کی خاطر بلڈرز انسانی جانوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، جبکہ SBCA ان سے نظریں چرا کر رشوت کی چمک میں اندھی ہو جاتی ہے۔

یہ مافیا صرف رہائشی یونٹس پر قابض نہیں بلکہ وہ شہر کے تاریخی اور جمالیاتی ورثے پر بھی حملہ آور ہے۔ کراچی کی سینکڑوں ہیریٹیج عمارتیں، جو برصغیر کی نوآبادیاتی، مغلیہ اور ابتدائی پاکستانی طرزِ تعمیر کی مثالیں تھیں، آج یا تو منہدم ہو چکی ہیں یا پھر ان کے مقام پر بے ہنگم کنکریٹ کے جنگل اگا دیے گئے ہیں۔

کراچی

صدر، کھارادر، کے سول لائنز، گارڈن اور اولڈ ٹاؤن جیسے علاقے کبھی فنی، ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے نہایت قیمتی تھے۔ ان علاقوں کی عمارات جنہیں ”ہیریٹیج سائٹس“ قرار دیا گیا تھا، انہیں قانون کی دھجیاں اڑا کر بلڈوز کر دیا گیا۔ آج بھی وہ سلسلہ جاری ہے، صرف اس لیے کہ وہاں زمین کی قیمت زیادہ تھی۔ ہالہ طرز کی چھتیں، گمبھیر کھڑکیاں، خوبصورت بالکونیاں اور سنگ مرمر سے تراشی گئی دیواریں اب صرف پرانی تصویروں میں دکھائی دیتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور بلڈر مافیا کا غیر علانیہ گٹھ جوڑ صرف ایک مقصد رکھتا ہے : کراچی کو مسخ کرنا، اس کی پہچان مٹانا۔

ملیر کی گرین بیلٹ: سانس لیتا شہر اب دم توڑ رہا ہے

کراچی کا مشرقی علاقہ، خاص طور پر ملیر، جو کبھی اس شہر کے پھیپھڑے تصور کیے جاتے تھے، آج وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں، سڑکیں اور کمرشل زونز اُگائے جا رہے ہیں۔ ملیر ندی، جس کے اردگرد سبزے، کھجور کے درخت اور زراعت ہوتی تھی، آج ریت اور کنکریٹ کا قبرستان بن چکی ہے۔

گرین بیلٹ کا خاتمہ صرف درختوں کی کٹائی یا زمین کی تبدیلی نہیں بلکہ ماحولیاتی توازن کی موت ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو پانی جذب نہیں ہوتا کیونکہ زمین کو سیمنٹ سے بند کر دیا گیا ہے۔ شہر میں گرمی بڑھ گئی ہے، پانی کی قلت شدید ہو گئی ہے، اور آلودگی کا کوئی حساب نہیں۔

شہر کا انفراسٹرکچر۔ پانی کی لائنیں، نکاسی کا نظام، بجلی کی ترسیل اور سڑکیں۔ پہلے ہی 1980 ء کی دہائی میں بنے منصوبوں پر قائم ہے۔ لیکن آبادی میں ہوشربا اضافہ، غیر منصوبہ بند تعمیرات اور غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیموں نے اس نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے کراچی ایک مصنوعی آتش فشاں پر بیٹھا ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔

کیا کوئی بچانے والا ہے؟

سوال یہ نہیں کہ عمارت کیوں گری؟ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی نظام بچا ہے جو ان واقعات کو روکے؟ SBCA، بلدیہ، کمشنری، حتیٰ کہ صوبائی حکومت، سب اس نظام کا حصہ ہیں جس نے کراچی کو دیمک زدہ کر دیا ہے۔ اگر عوام اور سول سوسائٹی نے آواز نہ اٹھائی، اگر عدلیہ نے ازخود نوٹس نہ لیے، اگر میڈیا نے دباؤ نہ ڈالا تو اگلی گری ہوئی عمارت کے ملبے سے صرف لاشیں نہیں نکلیں گی۔ یہ شہر خود اپنی قبر سے باہر آ جائے گا۔

کراچی صرف ایک شہر نہیں، یہ ایک تاریخ ہے، ایک تہذیب ہے، ایک خواب ہے۔ اور ہم سب اس کے گواہ بھی ہیں اور محافظ بھی۔

Facebook Comments Box