” ادبی دنیا کا روشن ستارہ محترمہ آصفہ مریم “.

یہ انٹرویو ایک خوبصورت اور دل سے لکھی گئی گفتگو ہے، جس میں محترمہ آصفہ مریم نے نہ صرف اپنے ادبی سفر کا احوال سنایا بلکہ ذاتی زندگی، جذبات، سماجی خدمت اور شاعری کے ذریعے معاشرے سے جُڑنے کا انداز بھی پیش کیا ہے۔ آصفہ مریم کا تعلق ظفروال ہے، ان کی شاعری، صحافت اور سماجی سرگرمیوں نے ان کا نام اہلِ ادب میں نمایاں کیا ہے۔ انٹرویو میں اُن کی سچائی، خلوص اور جذبہ صاف جھلکتا ہے۔

  1. آپ اپنا مکمل تعارف اپنے الفاظ میں کروائیں۔

میرا نام آصفہ مریم ہے۔ اس وقت میری رہائش ظفروال میں ہے جبکہ والدین کا گھر فیصل آباد میں ہے۔ ہم دو بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ میں ماشاءاللہ تین بچوں کی ماں ہوں—دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

  1. شاعری سے آپ کا شوق کیسے جڑا؟

مجھے اسکول کے زمانے سے ہی فنونِ لطیفہ سے دلچسپی تھی—نظمیں پڑھنا، تقریریں کرنا، نعتیں پڑھنا۔ اسی دوران خود سے لفظوں کو جوڑ کر مصرعے بنانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنا شروع کیے۔ ہمارے گھر کا ماحول بھی علمی تھا۔ والد صاحب ائیر فورس میں ملازم تھے۔ اُنہوں نے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ یوں یہ شوق وقت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا۔

  1. پہلی نظم یا غزل کب اور کس جذبے سے لکھی؟

میں نے پہلی نظم آٹھویں جماعت میں لکھی تھی، وہ بھی پنجابی زبان میں۔ اسکول میں 14 اگست کے پروگرام کی تیاری ہو رہی تھی، تو میں نے قائداعظم محمد علی جناح پر نظم لکھی۔ اس کا ایک شعر مجھے یاد ہے:
ساڈے ملک دا سچا ہیرا، ساڈا سوہنا قائد اے
ساڈے ملک دی اوچی شان، ساڈا سوہنا قائد اے

  1. “ہجر کا شور” کا خیال کیسے آیا؟

جب انسان اپنی شاعری کو مکمل کر کے اس کا مطالعہ کرتا ہے تو ایک مرکزی جذبہ ہر لفظ سے جھلکنے لگتا ہے۔ میری شاعری میں “ہجر کا شور” اس قدر نمایاں تھا کہ یہی میری کتاب کا موزوں ترین عنوان محسوس ہوا۔

  1. پنجابی شاعری کی کتاب “گونگیاں چیکاں” میں کیا خاص پیغام ہے؟

“گونگیاں چیکاں” معاشرے کے ہر اس دکھ، درد اور سچ کو اجاگر کرتی ہے جو اکثر زبان پر آ کر دب جاتے ہیں۔ ان لفظوں کی چیخیں اگرچہ سنائی نہیں دیتیں، مگر وہ دل کو چیر دیتی ہیں۔

  1. اردو اور پنجابی شاعری لکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟

اردو ہماری قومی زبان ہے جبکہ پنجابی میری ماں بولی ہے۔ دونوں زبانوں میں لکھنے کا تجربہ خوشگوار رہا، مگر پنجابی میں لکھتے ہوئے دل کو خاص سکون ملتا ہے۔

  1. کن شاعروں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں؟

فیض احمد فیض، راحت اندوری اور تجمل کلیم۔

  1. آپ کی شاعری میں ہجر اور دکھ نمایاں کیوں ہیں؟

زندگی نے کئی تلخ سچائیوں سے روشناس کرایا ہے۔ ان تجربات نے دل پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، جن کا عکس میری شاعری میں نظر آتا ہے۔ جو انسان خود محسوس کرتا ہے، وہی دوسروں تک پہنچاتا ہے۔

  1. خواتین لکھاریوں کے لئے آج کا دور کیسا ہے؟

آج کا دور خواتین لکھاریوں کے لیے آسان نہیں۔ جتنی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، اتنی نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

  1. ادبی تنظیم “اثاثہ ظفروال” کے مقاصد اور سرگرمیاں کیا ہیں؟

اس تنظیم کا بنیادی مقصد ادب کا فروغ ہے۔ ہم نے کئی کامیاب مشاعرے کروائے ہیں جن میں نوجوانوں کو بھرپور موقع دیا گیا۔

  1. صحافت میں آنے کا فیصلہ کیسے کیا؟

میری زندگی کا مقصد خدمتِ خلق ہے، اور میں نے صحافت کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا تاکہ لوگوں کی آواز بن سکوں۔

  1. 40 نیوز میڈیا گروپ میں آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟

میری ذمہ داری ہے کہ جو بھی فرد پنجاب بھر میں 40 نیوز کے ساتھ کام کرنا چاہے، اُسے عزت اور اہلیت کے مطابق مقام دیا جائے۔

  1. سماجی خدمت کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟

دوسروں کے لئے کچھ کرنا ہمیشہ سے مجھے خوشی دیتا رہا ہے۔ میں خود مسائل تلاش کر کے انہیں حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

  1. ظفروال جیسے علاقے سے نکل کر ادبی مقام حاصل کرنے کا سفر کیسا رہا؟

یہ سفر بہت خوبصورت رہا۔ اللہ نے عزت عطا کی، اور لوگوں نے دل سے پذیرائی بخشی۔

  1. ادیبوں اور شاعروں کا معاشرتی کردار کیا ہونا چاہئے؟

ادیب اور شاعر معاشرتی مسائل کو اپنے الفاظ کے ذریعے اجاگر کریں تاکہ ان کے حل کی راہ نکل سکے۔ ان کا کردار ہمیشہ مثبت اور شعور اجاگر کرنے والا ہونا چاہئے۔

  1. نوجوان نسل کو ادب سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟

مقامی سطح پر ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جائے اور نوجوانوں کو بھرپور شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ ان میں ادبی ذوق پروان چڑھے۔

  1. سوشل میڈیا شاعری کو کس حد تک فائدہ یا نقصان دے رہا ہے؟
    سوشل میڈیا ایک ذریعہ ہے، فائدہ یا نقصان اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ اگر مثبت استعمال کیا جائے تو یہ ایک بہترین پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔
  2. کبھی ایسا وقت آیا جب لکھنا چھوڑنے کا سوچا ہو؟

جی، شادی کے بعد تقریباً چودہ سال تک قلم کو خدا حافظ کہہ دیا تھا، مگر بعد میں پھر سے لکھنے کا آغاز کیا۔

  1. آپ کو شاعری کے لیے تحریک کہاں سے ملتی ہے؟

میں حقیقت پسند ہوں۔ جو کچھ دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں، اُسے ہی قلمبند کر کے دل کو سکون ملتا ہے۔

  1. مستقبل کے ادبی یا سماجی منصوبے؟

ادب کے فروغ کے لیے مزید ادبی پروگرام ترتیب دینا چاہتی ہوں اور سماجی مسائل کو اجاگر کر کے بہتری کی کوشش جاری رکھوں گی۔

  1. قارئین کو آپ کی شاعری سے کیا پیغام ملتا ہے؟

میری شاعری معاشرتی خوبیوں اور خامیوں کو سامنے لاتی ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

  1. نئی لکھنے والی خواتین یا نوجوان شعرا کے لیے پیغام؟

میرا پیغام ہے کہ حقیقت پسندی کو اپنی شاعری میں اولیت دیں تاکہ معاشرے میں ایک باوقار اور ذمہ دار کردار ادا کیا جا سکے۔

کلام:

غزل

دیکھ کر تجھ کو یوں تصویر نما ھو جانا
ھم نے کب سیکھا ھے ھر اک پہ فدا ھو جانا

معزرت لفظ ھے زخموں کا مداوا تو نہیں
کتنا آسان ھے ھونٹوں سے ادا ھو جانا

دست نازک جسے چھو لے وہ مہر تمکیں
سوکھتے پیڑ کا ممکن ھے ھرا ھو جانا

وہ جو آسودگی میں جی رہیں ھیں کیا جانیں
کس قدد کار اذیت ھے گدا ھو جانا

یہ کرشمہ بھی محبت نے دکھایا ھے مجھے
دور رہ کر تیرا ھر ایک جگہ ھو جانا

تیرے ھوتے ھوئیے بھی چار سو رب و الرباب
میں دیکھا ھے بشر کا بھی خدا ھو جانا

ھم سمجھتے ھیں محبت کو عبادت مریم
تم اگر چاھو زہے شوق قضا ھو جانا

آصفہ مریم.

Facebook Comments Box