تحریر۔ نظام الدین
کراچی جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں ایک بورڈ آویزاں کرکے دو انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے کے بیچوں بیچ ایک انسانی کھوپڑی بنا کر نیچے ریڈ کلر سے لکھ دیا جائے آ گے خطرہ ہے ، ان لوگوں کے لیے جو بوریا بستر باندھے جوق در جوق ، روزانہ اپنے گاؤں شہر اور پیاروں کو چھوڑ کر یہاں کھنچے چلے آر ہے ہیں کیون ؟ کیا سمندر کی کشش انہیں یہاں کھنچ کر لاتی ہے؟ یا پھر شہر کی صنعتیں؟ تو سنو یہ ان دو عناصر کے علاؤہ گلیمر ،، منشیات ،، حادثوں،، اور لاوارث لاشوں کا شہر بھی ہے ،
گلیمر اور منشیات کو تو بریکنگ نیوز مل جاتی ہے مگر حادثے اور لاوارث لاشیں کسی الیکٹرونک سوشل یا پھر پرنٹ میڈیا کی زینت نہیں بن پاتین، اگر شہر کراچی میں داخل ہونے والے صرف ایدھی فاؤنڈیشن 1986سے تاحال تک کا مطالعہ کرلیں جو 82٫500 سے ذیادہ
لاوارث لاشیں وصول کرچکا ہے یا یوں سمجھ لیں تین عشروں کے دوران اوسط 2٫750 سے زیادہ لاشیں ہر سال وصول کرتا ہے، آ گر یہ حساب سمجھ میں نہیں آتا تو کسی دن موچکو قبرستان چلے جائیں میں جب کچھ عرصے پہلے گیا تھا تو بے نام قبروں کے کتبوں پر ناموں کے بجائے نمبر درج تھے تو وہاں مدفن ایک نامعلوم شخص کا قبر نمبر 94٫900 تھا اب یہ نمبر کہاں تک پہنچ چکا واللہ اعلم ان لاوارثوں پر کوئی واویلا نہیں مچا تا کیسے مرے یا انہوں نے خودکشی تو نہیں کی منشیات پینے سے مر گئے یا پھر کسی نہ معلوم گولی کا شکار ہوگئے ؟
ان لاوارث لاشوں کے لیے کسی اخبار والے نے رپورٹنگ کی اور نہ ہی ٹی وی چینل والوں نے شور مچایا ۔لیکن یہ ہی موت اگر منشیات فروش فلم گلیمر یا سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی مشہور اداکار کی ہو تو اس موت کو کئی زاویے سے سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے تاکہ میڈیا کو اس کی ٹی آر پی سے منافع کمانے کا موقع ملتا رہے جیسا کہ اسٹائلش ڈرگ ڈیلر ساحر حسن اداکار ساجد حسن کا بیٹا ہاتھوں کی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتا ہوا نیوز چینل کے جھرمٹ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتا جرم کا اعتراف بھی کرلیتا ہے مگر میڈیا نے عوام، کے سامنے اسے مظلوم اور نفسیاتی مریض بنا کر پیش کیا ؟
اداکارہ حمیرہ اصغر کی موت کئی مہینے پہلے ہو چکی تھی اس کی لاش کی بدبو سے نہ تو ان کے پڑوسیوں کو کچھ پتہ چلا اور نہ ہی اس کے ستر لاکھ فالور میں سے کسی نے کبھی اس کی خبر لی یہ ایک چھبھتا ہوا سوال میڈیا والوں کو اٹھانا چاہیے تھا کہ آخر خودکشی کی شرح یا تنہا چھوڑ دیے جانے کی بیماری شوبز کے لوگوں میں زیادہ کیوں ہے؟ اس کے برعکس اس عنوان کو سنسنی خیز بنا کر پیش کیا گیا کہ حمیرہ اصغر کے باپ اور اس کے بھائی نے اس کی لاش کو لینے سے انکار کیوں کر کردیا ۔حقیقت یہ ہے کہ گلیمر انڈسٹری میں زندہ انسانوں کے گوشت کا کاروبار اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ حسیناؤں کا حسن برقرار ہے ۔جیسا کہ میں نے اوپر صرف ایک ایدھی قبرستان کا احوال لکھنا ہے ایسی اموات
کراچی میں روز ہوتی ہیں اور پولیس پڑوسیوں کی گواہی سے پنچ نامہ تیار کر کے لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد ایدھی کے حوالے کر دیتی ہے اور میڈیا ان اموات پر واویلا بھی نہیں مچاتا تو اس لئے کہ عام آدمی کو بھی عام آدمی کی موت پر زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی لیکن فحاشی اور منشیات کے کاروبار سے جڑا میڈیا اپنے نمائندگان سے مرنے کے بعد بھی فائدہ وصول کر لیتا ہے ۔حالانکہ جس طرح حمیرہ اصغر کی لاش اس کے فلیٹ میں منھ کے بل پڑی تھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی موت نشہ کرنے کی وجہ سے ہی ہوئی تھی ۔اب یہ الک بات ہے کہ اس نے منشیات کافی مقدار میں استعمال کرلی ہو ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اکثر گلیمر انڈسٹری اور ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ ڈبریشن کا شکار جلد ہو جاتے ہیں
۔حمیرہ اصغر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔وہ تقریبا اکتالیس سال کی ہو چکی تھی اور اب اسے اپنی خوبصورتی ماند پڑ جانے کی وجہ سے مایوسی نے گھیر لیا ہو ۔معاشی بدحالی کی وجہ سے وہ کئی مہینے سے فلیٹ کا کرایہ بھی نہیں دے سکی تھی ۔شاید اسی ڈپریشن میں اس نے زیادہ منشیات استعمال کرلی ہو اور چونکہ وہ اپنے فلیٹ میں تنہا تھی کوئی اسے وقت پر اسپتال وغیرہ بھی نہیں پہنچا سکا اور اس نے بے چینی کی حالت میں دم توڑ دیا ۔میڈیا میں عنوان تو یہ بننا چاہئے تھا کہ آخر اتنی بری اور عبرتناک اموات گلیمر اور ماڈرن معاشروں میں کیوں ہوتی ہے اس خبر کو عام کرنے کی بجاۓ اس کے باپ اور بھائی کو قصوروار ٹھہرا کر خبر کو سنسنی خیز بناکر اصل برائی سے توجہ ہٹا دی گئی ، اسے ہی کہتے ہیں دجالی فتنہ جسے ڈیجیٹل سوشل میڈیا کے ذریعے اور بھی بڑھاوا ملتا ہے مگر اس فتنے کی طرف بھی کم لوگوں کی نگاہ جاتی ہے کیوں کہ کسی حد تک ہم سب بھی تو تصنع پسند ہی ہو چکے ہیں یقین نہ ہو تو ٹی وی کی سینیٹر اداکارہ اپا عائشہ خان کے گلشن اقبال بلاک 7 فلیٹ کے توٹے دروازے کے اندر جھانک کر دیکھ لیجے جہاں سے ایک لاوارث لاش ایک ہفتے کے بعد نکالی گئی تھی سوچنے کی بات ہے وہ وہاں تنہا رہائش پذیر تھیں وارثوں کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث تھیں؟ اس لیے کراچی کی حدوں پر لکھ دو آگے خطرہ ہے،،،