اسلام آباد کے سیکٹر جی 9 کی امام بارگاہ میں جمع ہجوم میں کھڑا سانس لینے کے ناقابل محسوس کررہا تھا۔ پسینے میں شرابور جسم پر لگے دماغ کو لیکن یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں ایک ایسے شخص کی نماز جنازہ میں شریک ہوں جو زندگی کی توانائی اور رعنائی کی مجسم علامت تھے۔ آغامرتضیٰ پویا صاحب کو اگست 1978میں پہلی بار دیکھا تھا۔ نسبتاََ موٹاپے کو مائل مگر درازقد اور چوڑے سینے کے مالک تھے۔
موٹے شیشوں کے پیچھے چھپی آنکھیں ایک انوکھی چمک کی حامل تھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہ ملکی سیاست کو یوں زیر بحث لاتے جیسے کسی مزاحیہ ڈرامے کا ذکر ہورہا ہے۔ کسی انتہائی طاقتور شخصیت کا ذکر ہوتا تو وہ اپنی لمبی داڑھی کو ہاتھ کی پوری انگلیوں کے استعمال سے سیدھا کرتے ہوئے “ارے صاحب، ” کے بعد ایسا فقرہ ادا کرتے کہ زیر موضوع آئی شخصیت محض ایک بونا محسوس ہوتی۔ اس کے بارے میں کوئی ایسا انکشاف کردیتے جو مجھ ایسے عقل کل بنے رپورٹر کو بھی حیران کردیتا۔
لوگ کہتے ہیں کہ پویا صاحب کے بزرگوں کو مدراس میں آباد ہوئے ایرانی تاجروں نے وطن چھوڑ کر اس شہر بلایا تھا کیونکہ وہ اپنی دینی شناخت اور روایات برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ پویا صاحب بھی “عالم دین” کہلانے کے مستحق تھے۔ دین کی بابت اپنے علم کو البتہ انہوں نے لوگوں پر پارسائی کا رعب جھاڑنے کو کبھی استعمال نہیں کیا۔ مذہبی موضوعات پر بحث سے ہمیشہ گریز کو ترجیح دی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلیوں کے الزام کے تحت چلائی تحریک کے دوران ان کا نام ایک سخت گیر مقرر کی حیثیت میں مشہور ہوا تھا۔ شہرت کراچی میں ملی لیکن وہاں سے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد اسلا م آباد منتقل ہوگئے۔ یہاں قیام پذیر ہوتے ہی انہوں نے ایک نہیں تین جرائد کے آغاز کی ٹھان لی۔ انگریزی اور اردو کے ہفت روزوں کے علاوہ کراچی کے ڈان کے بعد پہلی بار اسلام آباد سے نجی سرمایہ کاری کے ساتھ انگریزی کا روزنامہ جاری کرنے کا ارادہ باندھا۔
میں اردو کے ہفت روزہ میں ملازم ہوا تھا۔ پانچ سے زیادہ مہینے مگر نوکری برقرار نہ رکھ پایا۔ اس کی وجوہات بیان کرنے کا یہ وقت نہیں۔ جس کہانی کی وجہ سے ملازمت سے محروم ہوکر دوبرسوں تک بے روزگار رہنا پڑا۔ اس کی وجہ سے ضیاء حکومت نے مسلم اخبار کو ڈیکلریشن دینے میں بہت دیر لگائی۔ پویا صاحب نے میری لکھی کہانی کی وجہ سے خود پر نازل ہوئی مصیبت کا میرے سامنے مگر ایک بار بھی ذکر نہیں کیا۔ “مسلم” اخبار نکلتے ہی اسلام آباد کے تقریباََ ہرگھر کا اخبار بن گیا۔ اس میں چھپی خبریں رات گئے تک زیر بحث رہتیں۔
پاکستان ٹائمز کے مشہور ایڈیٹر اے ٹی چودھری صاحب کی قیادت میں اس اخبارکو سلیم عاصی اور احمد حسن مرحومین جیسے معاونین ملے۔ یہ سینئر “صحافی” نت نئے خیالات کے ساتھ تجربے کرنے کے عادی تھے اور سنجیدگی سے یہ محسوس کرتے کہ جو خیالات وتجربات ان کے دماغ میں ہیں انہیں فقط نوجوان ہی عملی صورت دے سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کی حکومت کو مگر “مسلم” سے ہمیشہ گلارہا۔ اے ٹی چودھری صاحب دبائو میں استعفیٰ دے گئے۔ آغا مرتضیٰ پویا نے مگر ہمت نہ ہاری۔ ڈٹے رہے کہ اخبار کو اس کی باغیانہ روش کے ساتھ زندہ رکھنا ہے اور زندہ رہنے کے لئے چند سمجھوتوں سے انکار خودکش رویہ ہے۔
ان کی بدترین حالات میں بھی امید نہ کھونے کی وجہ سے 1980کا آغاز ہوتے ہی مشاہدحسین سید روزنامہ “مسلم” کے مدیر ہوئے۔ ان ہی کے دور میں بے روزگاری کا ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد فرہاد زیدی مرحوم کے توسط سے پویا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے “کہاں غائب تھے” کا سوال اٹھاکریہ پیغام دیا کہ مجھے ان کے دفتر میں دوبارہ کام کرنا ہے۔ مشاہد حسین سید سے ملاقات ہوئی تو “مسلم” سے رفاقت یقینی ہوگئی۔۔
“دی مسلم” کا لفظ سنتے ہی ذہن میں کسی مذہبی جریدے کا خیال آتا ہے۔ یہ نام مگر “ہندو” سے مستعار لیا گیا تھا۔ اس نام سے برطانوی دور کے 1878میں مدراس سے انگریزی کا ایک ہفت روزہ نکلا تھا۔ 1889میں یہ روزنامہ ہوگیا۔ مذکورہ اخبار آج بھی قائم ودائم ہے۔ جنوبی بھارت کا مستند اور قابل اعتبار اخبار ہے جو ابھی تک “گودی میڈیا” کہلوانے کی تہمت سے بچا ہوا ہے۔ پویا صاحب اپنے متلون مزاج کی وجہ سے مگر “دی مسلم” کے لئے ٹھوس معاشی بنیادیں اور ستون فراہم نہ کرپائے۔ آج کے دور میں انگریزی میں لکھنے والا شاید ہی کوئی صحافی ہوگا جس کے کیرئیر کا بھرپور عرصہ”دی مسلم” کے لئے کام کرنے میں خرچ نہیں ہوا۔
“دی مسلم” جیسے “قدامت پرست” نام اور پویا صاحب کی دینی پہچان کے باوجود یہ اخبار آزاد خیالی کا بھرپور پرچارک تھا۔ یہ انگریزی کا غالباََ واحد اخبار تھا جس میں اردو ادب کی تازہ ترین تخلیقات کا ذکر چھیڑتے ہوئے تازہ ادبی تجربات کا ذکر ہوتا۔ اسلام آباد میں کسی بھی تصویری نمائش سے قبل میں خود اس آرٹسٹ کا تفصیلی تعارف لکھتا جس کی تخلیقات کی نمائش ایک روز بعد ہونا تھی۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں ہوئی ہر ثقافتی وسماجی تقریب “دی مسلم” میں مناسب انداز میں نمایاں طورپر لوگوں کے روبرو لائی جاتی۔
“دی مسلم” کے دفتر میں چند سینئر حضرات کے استعمال کے لئے بنائے کیبنوں میں موجود کرسیوں کے علاوہ مرکزی ہال میں شاید ہی کسی کرسی کی کمرکوٹیک فراہم کرنے والی “پھٹی” باقی رہ گئی تھی۔ قدیم زمانے کے ایک یا دو ٹائپ رائٹر تھے جن پر کہانی ٹائپ کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا۔ دفتر کی عمومی خستہ حالی کے باوجود 20سے 30سال کی درمیانی عمر کے بے تحاشہ نوجوان نت نئے خیالات کو اسی اخبار کے ذریعے لوگوں کے روبرو لانے کو بے چین رہتے۔ اسی اخبار نے مجھے یہ ہمت دی کہ 1984میں پہلی بار ہندوستان کے تین ہفتوں کے سفر کے بعد میں یہ بڑھک لگاپایا کہ راجیوگاندھی تاریخی اکثریت کے ساتھ بھارت کا وزیر اعظم بن رہا ہے۔
ہماری “ایجنسیاں” اگرچہ وہاں “مخلوط حکومت” قائم ہونے کی پیش گوئی کررہی تھیں۔ اس اخبار نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں لکھی “پریس گیلری” کو صفحۂ اوّل پر چھاپنا شروع کیا۔ سفارتی تقریبات کا “ڈپلومیٹک فوکس” نامی کالم میں ذکر ہونا شروع ہوگیا۔ جتنے بھی تجربات ہوئے وہ مشاہد حسین سید اور آغا مرتضیٰ پویا کی بھرپور شفقت کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ پرانی وضع کے صحافیوں کو “کالموں” کا ان صفحوں پر چھاپنا پسند نہیں تھا جو ان کی دانست میں “خبروں” کے لئے مختص ہوتی ہیں۔
آغا صاحب مگر سینئر لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران ایسے کالموں کا بہت چائو سے ذکر کرتے اور یاد کرتے کہ فلاں فلاں اہم شخص نے ان کا ذکر کیا ہے۔ زندگی میں مشکل ترین تجربات کو بے چین آغا مرتضیٰ پویا بالآخر کئی برسوں سے تقریباََ گمنامی کی زندگی گزاررہے تھے۔ ان کی نماز جنازہ پڑھ لینے کے بعد گاڑی میں گھرکے قریب پہنچتے ہوئے بالآخر مجھے یاد آگیا کہ وہ بے چین شخص درحقیقت طبیعی موت مرنے سے برسوں قبل ہی مرچکا تھا۔ شاید ہمارے ہاں تخلیقی، زندگی سے بھرپور اور نت نئے تجربات کو بے قرار انسانوں کے زندہ رہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔