Blasphemy Business Group Aur Toheen e Mazhab o Muqaddsat Ka Qanoon

یہ انتہائی حساس اور قابل غور معاملہ مشہور زمانہ “بلاسفیمی بزنس گروپ” کا ہے اس کاروبار کے بانی رائو عبدالرحیم ایڈووکیٹ ہیں موصوف ان دنوں اسلام آباد بار کونسل کے لئے امیدوار بھی ہیں۔ حسن معاویہ ان کے پارٹنر ہیں۔ یہ علماء کونسل والے مولانا طاہر اشرفی کے چھوٹے بھائی ہیں چند برس قبل قیمتی گاڑیوں کے ایک کاروبار کے حوالے سے ان کا نام بھی آیا تھا۔ اس بار وہ مجاہد تحفظِ “ناموسات” کے طور پر سامنے آئے درست یا غلط ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی سادہ پوش فورس کے ذریعے بلاسفیمی کے مبینہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے دینی جذبے سے جہاد کیا۔

ایک خاتون کومل الیاس عرف ایمان ہیں میر پور آزاد کشمیر سے ان کا تعلق ہے یہ ایمان کی “حرارت” سے شکار کرنے میں ماہر ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود قانون نافذ کرنے والے محکمے اسے تحویل میں لے کر عدالت میں پیش کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔

چند کرداروں کا تعلق وفاقی تحقیقاتی محکمے ایف آئی اے سے ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک سابق جج عبدالعزیز کا بھی اس کاروبار میں “بے مثال” کردار ہے اپنا کردار کھلتا دیکھ کر وہ منصب سے مستعفی ہوگئے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ “بلاسفیمی بزنس گروپ” کے تقریباً 4 سو متاثرین (یہ نوجوان لڑکے اور بچیاں جیلوں میں ہیں) کے خلاف جو مقدمات درج ہوئے کیا ان کے لئے اندراج مقدمہ کی یہ شرط پوری کی گئی کہ ایف آئی آر درج کرنے کی جازت ایف آئی اے کا ڈائریکٹر یا ڈی آئی جی پولیس دے گا؟

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ہم ایسے قلم مزدور جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں بنائے گئے قانون توہین مذہب و مقدسات کے حوالے سے پہلے دن سے یہ عرض کرتے آرہے تھے کہ اندراج مقدمہ سے قبل ہر قسم کی تسلی بہت ضروری ہے۔

توہین مذہب و مقدسات کے مقدمات کے اندراج سے قبل ایک کیمٹی تقحیقات کرے کہ کہیں درخواست ذاتی یا فرقہ وارانہ عناد پر تو نہیں دی گئی۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ ایسی مخلصانہ تجاویز کو شرعی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مولانا صاحبان اور ان کے ہمدردوں نے تجاویز پیش کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔

یہ سال 1994ء کی بات ہے جب اس قلم مزدور نے روزنامہ “مشرق” لاہور میں اپنے کالم اور ایک ادارتی نوٹ میں عرض کیا ریاست کو اجتہاد کا حق نہیں اور نہ ہی یہ درست ہوگا کہ کوئی بھی شخص اٹھے اور منہ پھاڑ کر دوسرے کی تکفیر شروع کردے۔

کالم اور پھر چند دن بعد ادارتی نوٹ کی اشاعت کے بعد ایک فرقہ پرست تنظیم نے مجھے قادیانی قرار دے دیا وہ تو بھلا ہو استاد مکرم سیدی عالی رضوی مرحوم جناب ریاض بٹالوی مرحوم اور سید ممتاز شاہ صاحب کا کہ تینوں بزرگوں نے نہ صرف فتویٰ فروش کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ اسے معذرت پر آمادہ کیا۔

اس طرح کے تلخ ذاتی تجربے کا بعدازاں بھی متعدد بار سامنا کرنا پڑا۔

ان دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلاسفیمی بزنس گروپ کے حوالے سے درخواستیں زیرسماعت ہیں اس بزنس گروپ کے بانیان اور ہرکاروں کے اسم گرامی بالائی سطور میں عرض کرچکا میری اب بھی دیانتدارانہ رائے یہی ہے کہ ریاست کو اجتہاد کا حق ہے نہ فرد کو کسی کی تکفیر کا۔

یہاں ایک حالیہ دلچسپ قصہ سن لیجئے 5 جولائی 1977ء کے ضیائی مارشل لاء کے حوالے سے چند دن قبل لکھے گئے کالم کے جواب میں ڈاکٹر فدا محمد (یہ غالباً مانسہرہ کے رہنے والے ہیں) نے “جواں آں غزل” کے عنوان سے مضمون لکھا جوکہ روزنامہ “مشرق” پشاور کی مورخہ 10 جولائی کی اشاعت میں شائع ہوا۔ موصوف نے تاریخ اور زمینی حقائق سے بلاتکار تو کیا ہی ایک ظلم یہ کیا کہ امریکی آشیرباد اور ڈالروں کی جھنکار سے بننے والے بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کو پاکستان میں اسلام کی نشاط ثانیہ کے علمبردار کے طور پر پیش کیا۔

موصوف دوسری آئینی ترمیم کے معاملے کو بھی زیربحث لائے ان کی لغویات کا الگ سے جواب ایک آدھ دن میں لکھوں گا فی الوقت یہ عرض کرنا ہے کہ ریاستی اجتہاد کی سویلین صورت ہو یا فوجی ہر دو سے ریاست میں آباد لوگوں کے درمیان امتیازات اور نفرتوں کو پروان چڑھانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

پاکستانی سماج میں آج جو تقسیم نفرتیں اور عدم برداشت ہے اور جس طرح ایک وکیل اور “مولوی” نے مل کر بلاسفیمی بزنس گروپ بناکر چار سو سے زائد نوجوانوں کا مستقبل تاریک کیا اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے (حکومتی بھلے کسی کی بھی ہو)۔

توہین مذہب و مقدسات کے قانون نے بندروں کے ہاتھ میں استرا تو تھمایا ہی تھا کچھ “سیانے” لوگوں نے اسے کاروبار بھی بنالیا جیسے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین کے مبینہ ملزموں کی رٹ درخواست کی سماعتوں کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ بلاسفیمی بزنس گروپ کے ارکان نے توہین کے مبینہ ملزموں (ویسے شکاروں کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کے ورثا سے ہاتھ آئے شکار کی رہائی کے لئے مالی ڈیل کرنے کی کوششیں بھی کیں

مثال کے طور پر لاہور کے ایک قانون دان فلک آزاد ایڈووکیٹ نے ایسے ہی ایک معاملے میں ایف آئی اے کے ایک انسپکٹر کا نام لیا جس نے انہیں کہا کہ اپنے موکل کو رہا کروانا ہے تو اس کے والدین سے کہیں کہ 50 لاکھ روپے کا بندوبست کریں۔ پھر چند دن بعد پیشکش کی کہ 20 لاکھ آپ رکھ لیں 3 لاکھ ہمیؒں دے دیں ملزم کی بے گناہی کا عدالت میں لکھ کر دے دیں گے۔

فلک آزاد ایڈووکٹ ہی نہیں بعض مبینہ ملزموں کے ورثا بھی یہ الزام لگارہے ہیں کہ ان سے بلاسفیمی بزنس گروپ کے لوگوں نے سودے بازی کے لئے رابطہ کیا۔

سودے بازی کے لئے رابطہ کار وچولوں کے طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے دو عدد بڑے پیروں کے نام بھی آرہے ہیں ایک تو وہی ہیں جو ہندو برادری کی بچیوں کے اغوا اور جبری مذہت تبدیلی کے حوالے سے “نام کماچکے” دوسرے امرکوٹ سندھ کے سرہندی پیر ہیں۔

یقیناً یہ سارے معاملات اور الزامات کہیں نہ کہیں تو زیربحث آئیں گے۔

قابل غور اور قابلِ قبول تجویز تو یہ ے کہ ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن جیسے ملک کی تینوں بڑی خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ جے آئی ٹی کا قانونی تعاون حاصل ہو اور کمیشن کی رپورٹ کو فیصلہ کی حیثیت بھی تشکیل دیا جانا چاہیے۔

بلاسفیمی بزنس گروپ کے کاروبار کو عدالتی سماعتوں اور نقدونظر (تحریروں) کے ذریعے بے نقاب کرنے والے تمام لوگ قابل ستائش ہیں۔

یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ مختلف الخیال سماجی حلقوں کے لوگوں کو اس معاملے میں جرات مندانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔

یہاں نئی نسل کے بچوں اور بچیوں سے بھی درخواست ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہ صرف احتیاط سے کام لیں بلکہ واٹس ایپ اور میسجز پر جانو وغیرہ بننے کے “شوق” کا بھی شکار نہ ہوں۔

کوئی اجنبی خاتون یا شخص ملک سے باہر بھیجنے کی پیشکش کرے تو درختوں سے ڈالر پائونڈ یورو وغیرہ توڑنے کے “شوق” میں کملے نہ ہوجایا کریں۔

Facebook Comments Box