ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں اور بیوروکریٹوں کی اشرافیہ کا شور مچا ہوا ہے کہ وہ لوٹ کر کھاگئے اوریہ بھی کہ ان میں سے بہت ساروں کو بجلی بھی مفت ملتی ہے اور پٹرول بھی۔ شور یہ بھی ہے کہ اس اشرافیہ نے پاکستان کو نسل در نسل لوٹا ہے اورغریبوں کے حقوق و وسائل پر دونوں ہاتھ لمبے کرکے ڈاکے ڈالے ہیں۔ ہمیں یہ شکایتیں سوشل میڈیا پر کثرت سے نظر آتی ہیں جب بہت سارے وہ لوگ بھی انقلاب کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں حقیقت میں جن کے خلاف انقلاب فرض ہو چکا ہوتا ہے۔
ان لوگوں کی اکثریت ڈیفنسوں، ماڈل، گارڈن اور بحریہ ٹائونوں میں رہتے ہوئے اپنے مہنگے ترین سمارٹ فونوں سے پوسٹس کر رہی ہوتی ہے کہ اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے اور جب ان سے کوئی کیپٹن ایمان جیسی سمجھ داربیٹی سوال کرتی ہے کہ تم نے اس ملک کو کیا دیا ہے؟ تم ٹیکس تک تو دیتے نہیں، اس ملک کی پچیس کروڑ آبادی میں فائلرز کی تعداد پچاس لاکھ ہو اور ان میں سے بھی ایک تہائی زیرو یا ایک سو روپے تک کی فائلنگ کرتے ہوں تو کیا یہ سوال نہیں بنتا جبکہ دوسری طرف ہر شہر کے ارد گرد پوش آبادیوں کا گھیرا پڑتا جا رہاہے۔
میں اپنے شہر کی سڑکوں پر مہنگی ترین الیکٹرک گاڑیوں کی بھرمار ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ اس شہر میں جب دس، بیس اور پچاس ہزار کے سوٹ بیچنے والے بڑے بڑے آئوٹ لیٹ سیلز لگاتے ہیں تو انہی ممی ڈیڈی کلاس کی عورتوں کی وہاں قطاریں دیکھا کریں، وہ لاکھ، لاکھ کی خریداری کرکے پیمنٹ کے لئے گھنٹہ، گھنٹہ قطاروں میں لگتی ہیں۔
ہاں، ایک فرق موجود ہے، جو غریب ہیں وہ بہت زیادہ غریب ہیں۔ حکومتوں کو ان کے لئے سوچنا چاہئے، ان کی مدد کرنی چاہئے مگر میں قائل ہوں کہ آپ کسی بھی مالی امداد کے ذریعے کسی کی زندگی میں انقلاب نہیں لا سکتے جب تک وہ مالی مدد اس کے حالات بدلنے میں اس کی مدد نہ کرے یعنی اس مالی مدد سے اس کے بچوں کی تعلیم ہو۔ میں نے ابھی بلوچستان کے عبدالرحمان کی وہ ویڈیودیکھی جس میں وہ اب گریڈ سترہ کا افسر ہے مگر اس نے برف کے کارخانے میں کام کرکے تعلیم حاصل کی ہے۔ دوسرا اہم ترین کام یہ ہے کہ آپ کسی کو روزگار، کاروبار فراہم کردیں جس سے اس کی زندگی تبدیل ہوسکتی ہے ورنہ مالی مدد کھا پی لی جائے گی اوراس کے بعد دوبارہ وہ شخص یا خاندان وہیں پر کھڑا ہوگا۔
میں نے گھروں میں کام کرنے والی بہت ساری عورتوں کو اپنی بچیوں کو سکول بھیجتے دیکھا ہے تاکہ ان کی بیٹیوں کی زندگیاں ان کی طرح مشکل نہ ہوں۔ بہت سارے لوگ حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور میں اس سے انکار بھی نہیں کرتا کہ حکومتوں کی پہلی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے لئے بہترین وسائل اور مواقع فراہم کریں جیسے پنجاب میں ہونہار سکالرشپ مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ سو فیصد انقلاب کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ آپ کی زندگی کوئی حکومت نہیں بدلے گی، آپ کی زندگی تب بدلے گی جب آپ خود کو بدلیں گے۔
ہم جس اشرافیہ کی بات کرتے ہیں اس میں سب سے طاقتور کون ہے۔ ظاہر ہے عدلیہ اور بیوروکریسی سے بھی کہیں زیادہ فوج اور اس فوج میں سب سے طاقتور کون ہے وہ بھی ظاہر ہے فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر۔ میں جو بات آپ سے کہنے جا رہا ہوں اسے غور سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ جس اشرافیہ کی بات کرتے ہیں وہ کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوتی، اسے فرشتے کسی بادل پربٹھا کے کسی سپریم کورٹ، کسی جی ایچ کیو یا کسی پاک سیکرٹریٹ کی سب سے اونچی بلڈنگ پر اتار کر نہیں جاتے۔
یہ میں، آپ اور ہم سب ہی ہوتے ہیں یا ہمارے بچے، یہ ہمارے گلی محلوں سے ہی نکلتے ہیں، ہمارے والدین جیسے والدین کے ہی بچے ہوتے ہیں جیسے جنرل عاصم منیر، وہ راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد کے ایسے ہی خاندان کے بچے تھے جس خاندان کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا اور ان کے والد میری اطلاعات کے مطابق ایک سکول ٹیچراور بہت زیادہ مذہبی اقدار کے پابند۔
انہوں نے اپنے شہر کے ڈی اے وی کالج روڈ پر واقع مدرسہ دارالتجوید سے حفظ قرآن کیا، یہ ان کے والدین کی دی ہوئی تعلیم اور تربیت ہی تھی کہ ابھی حال ہی میں جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی تو راولپنڈی کی ریس کورس گرائونڈ میں نماز جنازہ بھی فیلڈ مارشل نے خود ہی پڑھائی۔ فوج میں میرٹ سے انکار کون کرسکتا ہے اور جب سید عاصم منیر نے منگلا کے آفیسرز ٹریننگ سکول سے اپنی فوجی تربیت مکمل کی تواس کے بعد وہ آگے صرف اور صرف اپنی محنت اور اہلیت سے بڑھے، دوران تربیت ہی اعزازی شمشیر حاصل کی۔
میں آپ کو فوج سے باہر عدلیہ اور بیوروکریسی میں لاناچاہتا، سیاستدانوں اور صحافیوں کی بات بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ہر شعبے میں آپ کو سیکڑوں افراد ملیں گے جن کا تعلق کسی دیہات سے ہوگا، ان کے ماں باپ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہوں گے مگر انہوں نے محنت کی ہوگی اور بات صرف ان اداروں کی ہی کیوں نہ کی جائے آپ کو اپنے ہر شہر میں ایسی درجنوں کاروباری شخصیات مل جائیں گی جنہوں نے ٹھیلوں سے کام شروع کیا ہوگا اور اب وہ بڑے بڑے پلازوں کے مالک ہوں گے، یقین نہیں آتا تو اردو بازار میں خالد پرویز صاحب کو ہی دیکھ لیجئے جو انجمن تاجران پاکستان کے اپنے دھڑے کے سربراہ ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں بھی ایسی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں جو مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے نکلے اوراس کے بعد فیصلہ ساز بنے۔ غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ پنجاب بنے جو آخر تک مسلم لیگ ہاؤس میں چارپائی بچھا کے سوجایا کرتے تھے اور ملک معراج خالد جو لاہور کے نواح میں دودھ کے کاروبار سے وابستہ خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر میں آپ کوصرف بڑی بڑی اورمشہور مثالیں نہیں دینا چاہتا بلکہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ارد گرد دیکھیں، ہزاروں بیوروکریٹ جو گریڈ سترہ سے بائیس تک میں رہے، سیکڑوں فوجی جو بریگیڈئیر یا جرنیل بنے، درجنوں وکیل جو جج بنے وہ عام ماں باپ کی اولاد تھے مگر ان میں وہ اور ان ہی گاؤں کے دوسرے لوگوں میں فرق صرف ایک تھا اور وہ تعلیم کا تھا، عزم و حوصلے کا تھا، سخت محنت کا تھا اور ہاں، سپورٹس تو میں بھول ہی گیا، یہ قومی کرکٹ ٹیم کے بہت سارے کھلاڑی کہاں سے آتے ہیں، ان کے والدین کے گھروں کی ویڈیوز آپ نے دیکھی ہے اور ان کے اپنے گھروں کی؟ یہ سب یہ نہیں سوچتے کہ انہوں نے کامیاب کرکٹروں سے سب کچھ چھین لینا ہے، یہ دوسروں کو ملی نعمتیں اور عزتیں دیکھ کر جلنے کڑھتے نہیں بلکہ انہیں آئیڈیل بناتے ہیں، ا س مقام کے لئے جدوجہد کرتے ہیں کچھ خود منزل تک پہنچ جاتے ہیں، کچھ اپنے بچوں کو پہنچا دیتے ہیں اور ایسے ہی ہماری اشرافیہ بنتی ہے۔ ان کی قابلیت، محنت اور مقام انہیں سہولتیں دیتے ہیں جو ان سب سے محروم ہوتے ہیں وہ روتے بلکتے رہتے ہیں۔