190 ملین پاؤنڈ کے میگا کرپشن کیس میں سابق چیئرمین اثاثہ ریکوری یونٹ (ARU) اور سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کا کردار انتہائی سنگین اور قابلِ مذمت ثابت ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق شہزاد اکبر نے ایک غیر قانونی سکیم کا ماسٹر مائنڈ بن کر نہ صرف پاکستان کے ریاستی مفادات کو نقصان پہنچایا بلکہ مالی طور پر بھی ملک کو اربوں روپے کا خسارہ دیا۔ یہ اسکینڈل بین الاقوامی سطح پر قومی بدنامی کا باعث بنا اور ثابت کیا کہ بعض ریاستی عہدیدار اپنے اختیارات کو کس طرح ذاتی مفاد یا مخصوص مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ شہزاد اکبر نے 6 نومبر 2019 کو ایک رازداری کے معاہدے (Deed of Confidentiality) پر دستخط کیے جو اس بدنیتی کا نقطہ آغاز تھا۔ اس اقدام کو کابینہ کی منظوری یا کسی آئینی ادارے کی اطلاع کے بغیر مکمل کیا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا۔
یہ بھی سامنے آیا کہ 190 ملین پاؤنڈز کی بھاری رقم جو دراصل برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے مبینہ طور پر علی ریاض ملک اور ان کی اہلیہ مبشرہ ملک کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں منجمد کی تھی، اسے غیر شفاف انداز میں واپس پاکستان منتقل کیا گیا۔ مگر یہ رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے بحریہ ٹاؤن کے ذمہ داری اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی، جسے غلط طور پر “اسٹیٹ آف پاکستان” کا اکاؤنٹ ظاہر کیا گیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ معاہدے پر شریک ملزم ضیاء المصطفیٰ نسیم نے بھی دستخط کیے اور اس تمام رقم کی ترسیل میں مدد فراہم کی۔ مخصوص اکاؤنٹ کو اسٹیٹ بینک کا اکاؤنٹ ظاہر کر کے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام رجسٹر کروانا اس مالی بے ضابطگی کا ایک اور ثبوت ہے۔
شہزاد اکبر نے 2019 میں برطانیہ کے دو دورے کیے، ایک 4 سے 8 فروری اور دوسرا 22 سے 26 مئی کو، جن کے دوران انہوں نے برطانوی ہوم سیکریٹری اور نیشنل کرائم ایجنسی کے اعلیٰ حکام سے خفیہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں مبینہ طور پر این سی اے کے حکام کے ساتھ مل کر ایک خفیہ روڈ میپ تیار کیا گیا تاکہ فنڈز کو واپس پاکستان منتقل کیا جا سکے، لیکن اس منصوبے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان جیسے کلیدی اداروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس بدنیتی کا مقصد شفافیت سے بچنا اور ریاستی اداروں کو اندھیرے میں رکھ کر مخصوص گروہ کو فائدہ پہنچانا تھا۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 3 دسمبر 2019 کو جب کابینہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا تو شہزاد اکبر نے خفیہ معاہدے کے متعلق کوئی ذکر نہیں کیا، حالانکہ وہ پہلے ہی 6 نومبر کو ایک رازداری کے معاہدے پر دستخط کر چکے تھے۔ اس عمل سے واضح ہے کہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ وفاقی کابینہ کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ رقم کی منتقلی سے متعلق تمام کارروائیاں نومبر 2019 کے آخر میں کابینہ کے فیصلے سے پہلے مکمل کی جا چکی تھیں، جو ریاستی امور کے غلط استعمال کی بدترین مثال ہے۔
برطانیہ میں یہ رقم علی ریاض ملک اور ان کے خاندان کے خلاف کرائم ایکٹ 2002 کے تحت ضبط کی گئی تھی، جس میں نیشنل کرائم ایجنسی نے 1 Hyde Park Place جیسی قیمتی جائیدادوں کی تحقیقات بھی کی تھیں۔ اس رقم کی قانونی واپسی ایک موقع تھا کہ پاکستان اسے قومی خزانے میں جمع کرواتا اور اسے عوامی فلاح میں استعمال کرتا، مگر افسوس کہ یہ رقم خفیہ معاہدوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی نذر ہو گئی۔ پاکستان کو ایک موقع ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے بھی بداعتمادی کا سامنا کرنا پڑا۔
عدالتی ریکارڈ اور اعلیٰ ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اثاثہ ریکوری یونٹ نے 13 اور 21 مارچ 2019 کو بحریہ ٹاؤن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جو نیشنل کرائم ایجنسی اور لندن میں موجود وکلاء کے ساتھ رابطوں کے بعد وجود میں آیا۔ اس معاہدے کی نوعیت اور تفصیلات آج بھی مکمل طور پر سامنے نہیں آ سکیں، مگر جو کچھ ریکارڈ پر موجود ہے وہ شہزاد اکبر کی منصوبہ بندی، سیاسی پشت پناہی اور قانونی دائرہ کار سے تجاوز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سابق وزیراعظم اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے بیانات سے بھی یہ ثابت ہوا کہ این سی اے سے رقم کی واپسی اور تصفیے کے بارے میں خفیہ ملاقاتیں مارچ 2019 میں ہو چکی تھیں۔
یہ تمام شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شہزاد اکبر نے نہ صرف ARU کے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا بلکہ وزیراعظم کے ساتھ مل کر ریاستی اداروں کو بائی پاس کیا اور ایک مخصوص گروہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریاستی مفادات کو قربان کیا۔ ان کے اقدامات نے نہ صرف عدلیہ کو بلکہ کابینہ، مالیاتی اداروں اور شفاف احتساب کے پورے نظام کو متاثر کیا۔ کابینہ میں معاملہ پیش کرتے وقت جان بوجھ کر خفیہ معاہدے کو چھپانا شہزاد اکبر کی بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ذرائع کے مطابق نیب اور دیگر متعلقہ ادارے اس وقت اس کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں، اور مقدمے میں اہم شواہد سامنے آ چکے ہیں جن کی بنیاد پر شہزاد اکبر کو اشتہاری مجرم بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ ان کے خلاف انٹرپول سے ریڈ وارنٹ جاری کروانے کی درخواست بھی زیرِ غور ہے۔ پاکستان کے عدالتی اور تحقیقاتی ادارے اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایسے کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی ریاستی اختیارات کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
اس کیس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً 190 ملین پاؤنڈ، جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً 50 ارب روپے بنتے ہیں، قومی خزانے کی بجائے ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم کو منتقل کر دیے گئے۔ یہ رقم اگر ریاستی خزانے میں جمع ہوتی تو صحت، تعلیم، پینے کے پانی یا دیگر عوامی بہبود کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ موقع بدعنوانی، بدنیتی اور خفیہ ساز باز کی نذر ہو گیا، جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔
190 ملین پاؤنڈ کیس پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا اسکینڈل بن چکا ہے جو شفاف احتساب کے عمل اور ریاستی امانت کی نزاکت کو بے نقاب کرتا ہے۔ مرزا شہزاد اکبر جیسے کردار، جو عوامی اعتماد اور اعلیٰ عہدوں کے مالک تھے، جب قانون اور آئین کو پس پشت ڈال کر خفیہ معاہدے کریں تو اداروں کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ اب یہ ریاست اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر کو نشانِ عبرت بنائیں تاکہ ریاستی نظام کو محفوظ اور شفاف بنایا جا سکے۔