زمین کی تلاش ہے

تحریر۔نظام الدین

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ فلسطین خدا کی طرف سے منتخب کردہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے مسیح موعود کی آمد ہوگی اور وہ جب تک ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر نہیں کریں گے نہ تو ان کا مسیحا آئے گا اور نہ ہی ان کی عالمی حکومت کا منصوبہ پائے تکمیل کو پہنچے گا، اس کے لیے وہ صدیوں سے ایک یہودی ریاست کے لیے
جدو جہد کرتے چلے آرہے تھے ؟؟؟ مگر ان یہودیوں کی تاریخ اپنی نوعیت میں منفرد اور عبرت آموز ہے ، جو صدیوں سے دربدر رہی ظلم ؤ جبر برداشت کیا ، اور تاریخ میں کئی سوالیہ نشان چھوڑے آج وہ دنیا کے سب سے نازک سیاسی خطے مشرقی وسطیٰ میں ایک ریاست اسرائیل کی شکل میں موجود تو ہیں ، مگر کیا اسرائیل صرف یہودیوں کی پناہ گا ہے ؟؟؟ یا عالمی سیاست کا ایسا مہک تجربہ گاہ ہے ، جہاں طاقت ، مذہب ، نسل اور مفاد ایک خون آشام مرکب بن چکے ہیں ؟؟؟
یہودیوں کی بنیاد حضرت ابرہیم کے بیٹے حضرت اسحاق اور ان کی نسل سے مانی جاتی ہے بائبل ، تورات اور قرآن ، تینوں مزاہب کی کتابوں میں ان کا ذکر موجود ہے ،
ان پر بابل روم ، یونان ، اور قرون وسطی میں یورپ کی عیسائی حکومتوں نے ظلم ؤ جبر کیا لیکن ہولوکاسٹ نے ان کی مظلومیت کو ایک عالمی ہمدردی میں بدل دیا نازی جرمنی کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا اور یہ ہی احساس اسرائیل کے قیام کی بنیاد بنا ، اب سوال یہ ہے کیا دنیا کے مختلف خطوں سے جن کو اسرائیل لاکر آباد کیا وہ یہودی ہیں ؟؟؟ یہودیوں کے مذہب میں تو ایک یہودی اس وقت یہودی مانا جاتا ہے جب اس کی ماں یہودی ہو؛ آگر کوئی یہودی مرد کسی بھی حالت میں غیر یہودی عورت سے شادی کر بھی لیتا ہے تو وہ اپنے خاندان میں ان بچوں کو یہودی نہیں منوا سکتا، یہودی مذہب میں تبلیغ کے زریعے کسی کو یہودی بھی نہیں بنایا جاسکتا ،
جس کی وجہ سے ان کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے۔ اسی طرح یہودیوں میں مذہب تبدیل کرنے کا عمل بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان بندشوں کے نتیجے میں یہودی ایک نسلی گروہ بن کر رہ گیا اور ایک نسلی گروہ میں لازمی اصلی یا نقلی کا فرق پہچانا مشکل نہیں ہوتا،
یہودیت کی ابتدا تو مشرق وسطیٰ میں ہوئی اور مشرق وسطیٰ میں عرب النسل سانولے رنگ کے یا سیاہ فام ہوتے ہیں، یہودیوں کے تمام انبیا سانولے رنگ کے مشرق وسطیٰ کے خدو خال کے حامل تھے ، اور اسرائیل میں جو لوگ رہائش پذیر ہوئے ان میں 80 فیصد سفید فام افراد ہیں ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سفید فام افراد کون ہیں ؟؟؟ جو اسرائیل کے قیام سے حکومتوں ، سرکاری ملازمتوں ، فوج میں سیاست میں ، اور دیگر معاملات کے کرتا دھرتا ہیں ،
اور اگر ماں لیا جائے کہ حالات کے مدنظر یہودی مشرق وسطی سے نکل کر سفید فام علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ، سفید فام علاقوں میں سکونت بھی اختیار کرلی اور وہاں موسم کی وجہ سے پوری نسل بدل گئی محض چند صدیوں میں ۔ جبکہ ” ان کی بیماریوں سے حاصل ڈی این اے ٹیسٹ کے خون میں 80 فیصد سفید فام خون شامل ہے، تاریخی شواہد کے مطابق اسرائیل میں آباد ان افراد کے
آباﺅاجداد کا سرے سے مشرق وسطیٰ سے کوئی تعلق ہی نہیں یہ سرے سے نسلاً یہودی بھی نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے پھر یہ کون ہیں ؟؟؟
یہ تقریباً 900 عیسویں کے لگ بھگ روس کے کچھ مخصوص علاقوں میں جہاں آج کل آذربائیجان , تاجکستان اور دیگر وسط ایشیا کی ریاستوں میں شامل اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں ہیں ، ان کا نسلاً کوئی تعلق یا واسطہ مشرق وسطیٰ سے نہیں تھا۔ جب ان کی حکومت اور ریاست کو زوال آیا تو یہ لوگ یہاں سے نکلے اور یورپ میں پھیل گئے ، یہودیوں کے نام پر جو قتل عام ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے اردگرد کیا تھا اس میں یہ نظریات پس منظر میں تھا کہ ہماری سفید فام نسل کو ان لوگوں نے سود ؤ دیگر خرافات میں مبتلا کرکے گندہ کردیا ہے ، اس قتل عام کے بعد دائیں بازو کی ذہنیت رکھنے والے سفید فام نسل کی ہمدردیاں انہیں حاصل ہوگیں ، اور جب
اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہودی مدینہ اور ہر اس علاقے میں آباد تھے جہاں معیشت مضبوط تھی۔مثلاً بغداد، دمشق، صنعا، قاہرہ وغیرہ۔ وہ نسلاً مشرق وسطیٰ کے لوگ تھے وہ چپٹی ناک والے چائنیز تھے نا کہ سیاہ فام افریقی اور نہ ہی سفید فام۔ یہ آرام سے مدینہ میں زندگی گزار رہے تھے، غزوہ خیبر کے بعد بھی کچھ عرصے تک وہ مدینہ میں ہی مقیم رہے اور پھر بعدازاں جزیرہ عرب سے باہر چلے گئے۔ ان علاقوں میں بغداد، یمن، دمشق، ترکی، قاہرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت عرب دنیا کا کوئی خاص رابطہ یورپ وغیرہ سے نہیں تھا ،
بغداد، قاہرہ، دمشق، یمن میں یہودی کمیونٹی کافی خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی ، حتیٰ کہ 1941ءتک وہ ان علاقوں میں آباد رہے۔ جب 1948ءمیں اسرائیل کی ریاست غیر قانونی طور پر قائم ہوئی۔ تو اس دوران کچھ یہودیوں نے جو عرب علاقوں کے رہائشی پزیر تھے؛ حالات کے پیش نظر اسی میں عافیت سمجھی کہ اسرائیل کی طرف ہجرت کرلی جائے، ناچاہتے ہوئے بھی۔ یہ یہودی عرب کلچر میں کافی مکس ہو کر رہ رہے تھے۔ گھروں میں عبرانی کے بجائے عربی بولتے تھے۔ ان کا رہن سہن لباس عربوں سے کافی ملتا تھا۔ ان میں سے کافی یہودی اپنا سلسلہ نسب واپس مدینہ اور مدینہ سے واپس سیدنا یعقوب تک جوڑ سکتے تھے۔ یہ تھے اصلی یہودی، جن کو ایک طرف کردیا گیا۔ یہ جزیرہ عرب سے جب نکلے بھی تو یورپ کی طرف نہیں گئے تھے۔
تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یورپ میں یہودیت آئی،،
اب اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ گتھی سلجھ جاتی ہے کہ آخر انتہائی دائیں بازو کے لوگ یہودیوں کی کیوں حمایت کررہے ہیں۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ یہ سفید فام دراصل انہی کے لوگ ہیں جنہوں نے صرف مذہب بدلا ہے جلد کا رنگ نہیں۔ اور برصغیر پاک و ہند سے بھی جو یہودی اسرائیل ہجرت کر گئے تھے وہ اسلام سے پہلے کے وہ سوداگر تھے جو عرب سے یہاں رہائش پذیر ہوگئے تھے ،
” ایک بار پھر عالمی طاقتوں نے مسلمانوں یہودیوں عیسائیوں اور ہندوؤں کے کچھ مخصوص گروں کو ملاکر عالمی امن کے نام پر ایک نئے مذہب ابراہیمی کی بنیاد رکھ دی ہے بس کسی خطے میں ان کو آباد کرنے کے لیے زمین کی تلاش ہے ، وہ ایران افغانستان پاکستان کا مسترکہ “بلوچستان” ہوسکتا ہے “عرب ریاستوں” کے درمیان ، یا پھر بھارت پاکستان کے”کشمیر” کی سر زمین ہوسکتی ہے؟؟؟

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *