” تمثیلہ لطیف — ادبی دنیا کی پراثر اور توانا آواز”.

انٹرویو : فریدہ خانم ۔

تمثیلہ لطیف اردو ادب کی ایک سنجیدہ اور حساس مزاج شاعرہ و نثر نگار ہیں۔ فطری مشاہدہ، احساس اور انسان دوستی نے آپ کو ادب کی طرف مائل کیا۔ شاعری میں آپ کی خاص پہچان غزل کے میدان میں ہے، جبکہ نثر میں بھی آپ افسانے، کالم اور شخصی مضامین لکھ چکی ہیں۔ آپ کی چار شعری کتابیں شائع ہو چکی ہیں: “کوئی ہمسفر نہیں ہے”، “دشت میں دیپ جلے”، “اشکِ تمنا” اور “کیفِ غم”۔ علاوہ ازیں آپ نے معروف شاعر ممتاز راشد پر لکھے گئے ایم فل کے تحقیقی مقالے کو کتابی صورت میں ممتاز سخنور کے عنوان سے شائع کرایا، جو آپ کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیت کا مظہر ہے۔ آئیے اس سادہ دل اور ذہین خاتون سے کی گئی ادبی گفتگو کا احوال پڑھتے ہیں:

1۔ آپ کا خاندانی پس منظر؟

خاندانی پسِ منظر مذہبی اور روحانی رہا۔ ادب سے دور دور تک کبھی کسی کا کوئی واسطہ نہ تھا یا یوں کہہ لیں شاعری کا شغف ہی نہ تھا۔ اس لئے مذہبی امور اور معلومات سے آشنائی رہی۔

2۔ تعلیم؟

بی اے۔

3۔ لکھنے کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟

انسان حساسیت اور احساس کا ستایا ہوا آخر کبھی نہ کبھی قلم سے دوستی کر لیتا ہے اور لفظوں کو ہمراز بنا لیتا ہے، میری زندگی کے بہت سے ایسے مناظر اور رویے مجھے قلم سے دوستی کرنے پر مجبور کر گئے اور بس پھر میں نے قلم کو دوست بنا کر الفاظ کے ہار پرو کر اشعار کی مالائیں بُنی۔ زیادہ تر غزل لکھی۔

4۔ ادب کی کن اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور خود اپنے آپ کو سب سے زیادہ کون سی صنف پسند ہے؟

میں نے شروعات شاعری سے ہی کی۔ زیادہ تر غزلیں لکھیں، نظمیں بہت کم۔ پھر میں نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی، شروعات افسانوں سے کی، پھر چند مختصر کالم لکھے اور ساتھ ہی ساتھ ادبی شخصیات پر مضامین بھی تحریر کیے۔ مگر شاعری سے زیادہ لگاؤ رہا۔

5۔ کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور مزید کن موضوعات پر لکھ رہی ہیں؟

الحمدللہ، میری پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ چار شعری مجموعے:

1۔ کوئی ہمسفر نہیں ہے۔
2۔ دشت میں دیپ جلے۔
3۔ اشکِ تمنا۔
4۔ کیفِ غم۔
اور ایک نثری کتاب ممتاز سخنور، جو کہ ممتاز راشد پر لکھے گئے ایم فل کے تحقیقی مقالے کا کتابی جائزہ ہے۔ دو شعری مجموعے زیرِ ترتیب ہیں۔

6۔ ادب کی دنیا کو کیسا پایا؟

ادب کی دنیا محض دکھاوے کی دنیا ہے۔ یہاں ٹیلنٹ کی قدر تو ویسے ہی نہیں۔ جو مالی طور پر مضبوط ہیں، وہی ادب میں بھی نام کما رہے ہیں، چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد حضرات۔ ایک عام خاتون، جو کسی بڑے عہدے پر فائز نہیں، وہ کتنا بھی اچھا کیوں نہ لکھے، گمنام ہی رہتی ہے۔ اس لئے اس جھوٹی شہرت اور دکھاوے کی دنیا سے میں باغی ہوں۔

7۔ دیگر مصروفیات کیا ہیں؟

ایک پرائیویٹ اسکول میں ملازمت، جزوقتی ٹیوشن، اور اپنی زندگی میں گم۔

8۔ اب تک کتنے ایوارڈز ملے اور ان میں سب سے خاص کون سا ہے؟

ایوارڈز کی کیا اہمیت ہے؟ اب تو چھان بورے والے کو بھی ایوارڈز مل جاتے ہیں۔ میرے لئے کوئی بھی ایوارڈ کبھی خاص نہیں رہا۔ یوں تو اب تک بے شمار ایوارڈز مل چکے ہیں۔

9۔ زندگی کی کون سی خواہش ہے جس کے پورے ہونے کا انتظار ہے؟

زندگی میں ایسی کوئی دنیاوی خواہش تو نہیں، بس یہ خواہش ہے کہ عمرے کی سعادت حاصل ہو جائے اور مدینے حاضری کی درخواست منظور ہو جائے۔

10۔ کوئی دل کی ایسی بات جو آپ پڑھنے والوں سے شیئر کرنا چاہیں؟

اب لوگ خود بہت سمجھدار ہو چکے ہیں۔ دل کی باتیں شیئر کرنا بھی اکثر وبالِ جان بن جاتا ہے۔ البتہ انسانیت کو سمجھیں اور انسان ہونے کے ناتے انسانیت کے فرائض ادا کریں، بس۔

11۔ کہتے ہیں شاعری کے لیے محبت ضروری ہے؟

محبت کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ شاعری صرف محبوب کی محبت سے منسلک ہو۔ میرے خیال سے سب سے انمول اور پرخلوص محبت والدین کی ہوتی ہے، پھر بہن بھائی کی۔ کسی ایک سے آپ کو بہت زیادہ لگاؤ ہو سکتا ہے، چاہے وہ بھائی ہو یا بہن۔ یہ محبت فطری جذبہ ہے۔ ہر کوئی محبت کرتا ہے، بس روپ الگ الگ ہوتے ہیں۔ شاعری کا محبت سے تعلق ضرور ہے، مگر یہ لازم نہیں کہ وہ صرف لڑکے اور لڑکی کی محبت ہو۔

12۔ آپ کی پسندیدہ شاعرات اور شعراء کون سے ہیں؟

یوں تو ہر لکھنے والے کا اندازِ بیان الگ ہوتا ہے۔ اب تو ہر گلی نکڑ پر شاعر موجود ہیں۔ معاشی مسائل نے بہت سے بے روزگاروں کو شاعر بنا دیا ہے۔ قدیم شعرا میں اقبال رح، پروین شاکر اور ساغر صدیقی کو جستجو سے پڑھا۔ موجودہ دور میں مظفر احمد مظفر، کومل جوئیہ، شعاعِ نور اور عابدہ شیخ قابلِ ذکر ہیں۔

13۔ ادب کی پروموشن میں میڈیا کا کیا کردار ہے؟

میڈیا کا کردار پاکستان کے قیام سے شروع ہو چکا تھا۔ اس وقت سست روی تھی، اور ادبی رسائل میں چھپنا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کی بھرمار ہے، ہر چیز آن لائن ہو چکی ہے۔ مگر یہ آن لائن اخبارات اور پلیٹ فارم ادبی خوشحالی کے ضامن نہیں۔

14۔ آن لائن ادبی تنظیمیں اور مشاعرے، میڈل، اسناد — آپ کی کیا رائے ہے؟

مجھے یہ آن لائن مشاعرے کبھی سمجھ نہیں آئے۔ نہ ہی دلچسپی ہے۔ اسناد اور میڈل اب محض مذاق بن چکے ہیں۔ تنظیمیں لوگ بنا لیتے ہیں مگر عملی طور پر بے اثر ہوتی ہیں۔ اگر حقیقی پروگرام منعقد ہوں جہاں قابلیت کا اعتراف ہو، تو بہتر ہے۔ آن لائن سرگرمیاں سنجیدہ ادب کا متبادل نہیں۔

15۔ کیا آپ نے ریڈیو یا ٹی وی کے مشاعروں میں شرکت کی؟

جی ہاں، شاعری کے ابتدائی دنوں میں ریڈیو ایف ایم اور پی ٹی وی پر چار مشاعرے پڑھے اور انٹرویوز بھی ہوئے۔ ایف ایم پر مہمان شاعرہ کے طور پر بھی شرکت کی۔ اب تو لگتا ہے ان پلیٹ فارمز کے لئے مزید بوڑھا ہونا پڑے گا ۔

16۔ آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے؟

میری شاعری میں رومانیت کم، جبکہ فکری، معاشی اور سماجی مسائل پر زیادہ توجہ ہے۔ میرا مقصد یہی ہے کہ اپنے اشعار کے ذریعے معاشرتی سچائیوں کو سامنے لا سکوں، خصوصاً خواتین کے جذبات اور تجربات کی عکاسی کر سکوں۔

17۔ خواتین اور فنونِ لطیفہ — معاشرتی رویے؟

کوئی بھی میدان ہو، خواتین کو منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر مقصد پر توجہ اور منفی تبصروں کو نظر انداز کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ معاشرہ بظاہر ایڈوانس ہو چکا ہے, مگر سوچ اب بھی محدود ہے۔ سوشل میڈیا نے حالات مزید الجھا دیئے ہیں۔

18۔ پسندیدہ شعر؟

کوئی ایک تو نہیں ہو سکتا، لیکن یہ شعر دل سے قریب ہے:

انصاف کی مسند پر سنتا ہی نہیں منصف
اب کس سے مدد مانگے مظلوم یہ بیچارہ؟

19۔ نئے لکھنے والوں کے لئے پیغام؟

میرا پیغام محبت، انسانیت اور احساس کا ہے۔ جہاں جہاں تک پہنچے، وہی میری شاعری کی کامیابی ہو گی۔

نمونہء کلام:

    غزل 

غزل

پیکر حسیں تراشئیے نقشہ بنائیے
اُس بے وفا کا عکس دوبارہ بنائیے

یوں تو کہانی آپ کی ساری ہی جھوٹ ہے
جتنا میں بن سکوں مجھے اُتنا بنائیے

جو دل بنا رہے ہیں محبت کے واسطے
پہلے تو اس میں ایک خسارہ بنائیے

خود کو تراشیے کسی سورج کے سامنے
چھونے پہ خود کو موم کے جیسا بنائیے

کچھ دن مزید ساتھ گزاریں گے اور ہم
اچھا سا اب کی بار بہانہ بنائیے

کہیے پھر اُس کے بعد زمانہ خراب ہے
پہلے تو اپنے آپ کو اچھا بنائیے

تمثیلہ اس غزل میں بظاہر تو کچھ نہیں
کس پر کریں گے بات وہ نُکتہ بنائیے

Facebook Comments Box