عام طور پر برکس کو نیٹو اور یورپی یونین جیسی طاقتور تنظیموں کا متبادل تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ تاثر شاید اب زیادہ دیر برقرار نہ رہے۔ ایسا تاثر محض جزوی طور پر ہی درست کہا جا سکتا ہے کیونکہ رُکن ممالک میں تجارتی اور معاشی تعاون بڑھانے کے باوجود ابھی تک دفاعی تعاون میں اضافہ نہیں ہو سکا اِس لیے اِسے کیونکر نیٹو کا متبادل قراردیا جاتا ہے؟ مگر جیسے جیسے رُکن ممالک میں تجارتی و معاشی روابط فروغ پذیر ہیں اِس تنظیم کی افادیت و اہمیت تسلیم اور اِس کے فیصلوں کو بھی سنجیدہ لیا جانے لگا ہے لیکن اگر اپنا وقار و نکتہ نظر منوانا اور دنیا کو ہم خیال بنانا ہے تو اِس تنظیم کو برملا اور دوٹوک رویہ اختیار کرنا ہوگا ابہام پر مبنی پالیسی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں برکس کے حالیہ دو روزہ 17 ویں سربراہی اجلاس سے دنیا کو اچھا پیغام نہیں گیا بلکہ کئی کمزوریوں کو واضح کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اجلاس کے دوران رُکن ممالک نے امریکی تجارتی پالیسیوں کو بے ترتیب، نقصان دہ اور غیر قانونی قرار دیا ہے جس پر صدر ٹرمپ نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جو بھی ملک امریکہ مخالف پالیسیوں کا ساتھ دے گا اُس پر دس فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا اور اِس حوالے سے کسی کو استثنیٰ نہیں ہوگا۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ تنظیم نے خیالات کا اظہار تو کیا لیکن کوئی طریقہ کار یا لائحہ عمل نہیں بنایا حالانکہ برکس ممالک کی جانب سے تجارتی پالیسیوں پر تنقید کے جواب میں ٹرمپ کے خیالات غیر متوقع نہیں کیونکہ آجکل وہ جس قسم کی جارحانہ تجارتی حکمتِ عملی پر کاربند ہیں وہ بھارت کے لیے بھی خطرے کے الارم سے کم نہیں، مگر جواب میں اُس کی طرف سے معنی خیز خاموشی ہے اور ظاہری و در پردہ امریکہ سے گرمجوشی پر مبنی شراکت داری بحال رکھنے کے لیے سفارتی حوالے سے سرگرم ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے حوالے سے بھارت کا زیادہ دیر مُبہم رویہ تب تک فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا جب تک دونوں ممالک کو اپنی حالیہ پالیسیوں پر جلد نظرثانی نہ کریں۔ بظاہر امریکہ سے ایسی کسی سرگرمی کی توقع کم ہے لہذا باہمی تعلقات غیر متوازن ہونے کے امکانات حقیقت کاروپ دھار سکتے ہیں۔
برکس کوئی معمولی تنظیم نہیں کیونکہ یہ دنیا کی کُل آبادی کے نصف اور عالمی معیشت کے چالیس فیصد کی نمائندہ ہے مگر اب بھی یہ تنظیم دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکی جو وسائل، آبادی، معیشت اور دفاعی حوالے سے اِس کا حق ہے۔ برازیل میں انعقاد پذیر اجلاس سے دنیا کوبڑی حد تک نااتفاقی کا پیغام گیا ہے سعودی عرب، انڈونیشیا اور برازیل جیسے اہم ممالک جن کا شمار امریکی اتحادیوں میں ہوتا ہے نے اجلاس میں صدر ٹرمپ کا نام لینے سے دانستہ طور پر گریز کیا۔ یہ خوف ہے یا تجارتی مفادات بچانے کی ایک اور کوشش، وجوہات کے حوالے سے ماہرین کی رائے تضاد ہے البتہ اِس پر سب متفق ہیں کہ اندرونی عدمِ اتفاق تنظیم کے لیے نیک شگون نہیں۔ اِس لیے جلد یا بدیر رُکن ممالک کو اپنی پالیسیوں کے ابہام و تضادات دور کرنا ہوں گے۔
برازیلی صدر لوئس ایناسیو لولاداسلوا نے کہا ہے کہ اُبھرتے ہوئے برکس ممالک کسی بادشاہ کے تحت زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔ اتحاد میں شامل گیارہ ممالک کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر کسی کا نام لیے بغیر انھوں نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم خود مختار قومیں ہیں لہذا کسی شہنشاہ کو نہیں مانتے۔ چین جسے آجکل امریکہ مخالف سرگرمیوں کا محور خیال کیا جاتا ہے نے بھی حالیہ اجلاس میں کہہ دیا ہے کہ برکس کسی ملک کے خلاف بلاک نہیں بلکہ تعاون کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ نیز تجارتی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤنِنگ نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے کہہ دیا کہ تجارتی اور محصولات جنگوں کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔
روسی ترجمان دمتری پسکوف نے بھی اِس بار خاصا نرم رویہ اپناتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی کہ برکس تنظیم کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تنظیم میں شامل تمام گیارہ ممالک کا تو آپس میں بھی اتفاق نہیں تو تنظیم بنانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا حالیہ اجلاس صرف کھانے کی تقریب تھی یا تصاویر بنوانے کی محفل؟ اگر ایسا نہیں تو رُکن ممالک اپنے مفادات کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرنے میں کیوں مخمصے کا شکار ہیں؟ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ تنظیم کے حالیہ اجلاس نے نہ صرف خومختاری کا تاثر زائل کیا ہے بلکہ کسی نادیدہ خوف کاشکار رُکن ممالک ایسی اَن دیکھی جکڑ بندیوں کا شکار نظر آئے جن کے تناظر میں آزادانہ فیصلے کی توقع عبث ہے۔
دنیا کو درپیش حالات کے تناظر میں برکس کا رویہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی طرح کچھ زیادہ ہی نرمی پر مبنی ہے۔ ایسے رویے سے مطالبات منوائے نہیں جا سکتے۔ برکس نے رواں ماہ کے اپنے سربراہی اجلاس میں واضح کیا ہے کہ غزہ کی پٹی مقبوضہ فلسطینی علاقے کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے لہذا مغربی کنارے کے ساتھ اُسے فلسطینی اتھارٹی کے تحت یکجا کیا جائے۔ اعلامیے میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے نیک نیتی سے مزاکرات کیے جائیں۔ اسرائیلی افواج کو غزہ اور دیگر تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے واپس بلایا جائے۔ برکس نے اسرائیل اور امریکہ کا نام لیے بغیر ایران حملوں کی مذمت کی اور انھیں عالمی قوانین کے منافی قرار دیا ایسے نرم اور ڈھیلے ڈھالے اعلامیے سے خیال کر لینا کہ طاقتور ممالک جارحیت کرنے سے باز آجائیں گے محض ایک خام خیالی ہی کہی جا سکتی ہے کیونکہ بات کرتے ہوئے یہ احتیاط کرنا کہ کسی کی جبیں شکن آلود نہ ہو کمزور ہونے کا بین ثبوت ہے۔
برکس اجلاس سے بھارت بہتر سفارتکاری سے اِتنا فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا کہ تنظیم نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کردی۔ بھارت کی تو یہ بھی خواہش تھی کہ پاکستان کا نام شامل کرتے ہوئے مذمت واضح اور واشگاف ہو لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا مگرپھر بھی یہ کیا کم ہے کہ مذمت کرنے کی بھارتی خواہش تو پوری ہوگئی لیکن اِس تنظیم کے بہی خواہوں میں ایسا رویہ تشویش کا باعث ہے۔ اِس سے رُکن ممالک میں عدم اتفاقی کا تاثر گہرا ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں تعاون بڑھانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں ہونے والی سفارتی سُبکی کا بھارت نے برکس اجلاس سے ازالا تو کرا لیا لیکن ایسی کھینچا تانی تنظیمی کمزوریوں کا تو باعث بن سکتی ہے مگر وقار بڑھانے میں فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ اگر دنیا سے موقف منوانا ہے تو نہ صرف تنظیم کے اندر افہام و تفہیم کی فضا کو بہتر بنانا ہوگا بلکہ رُکن ممالک میں مشترکہ تعمیر اور اشتراک پر مبنی تصور کی عملی اہمیت بھی واضح کرنا ہوگی۔ اِس حوالے سے صنعت اور ٹیلی مواصلات سمیت دیگر شعبوں میں رُکن ممالک کے باصلاحیت افراد کی تربیت قائم کرنے کی چینی پیشکش بروقت اور سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر عالمی حکمرانی کو منصفانہ، معقول اور منظم سمت میں فروغ دینا ہے تو تنظیم کو نادیدہ بیرونی خوف سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے اندرونی کشمکش پربھی جلد قابو پانا ہوگا۔