اشرافیہ عمومی طور پر بولے جانے والا وہ لفظ ہے، جس کے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہے، لیکن سماجی سطح پر بولے جانے والا یہ لفظ اُس طبقہ کے بارے میں کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کرتا، حرف عام میں اس سے مراد مقتدر طبقہ، روساء، اعلی خاندان، چند خواص یا امراء کی حکومت لیا جاتا ہے، سماجی علوم کے ماہر میکس ویبر نے اسکی تعریف یوں کی ہے کہ وہ سب لوگ جن کا سماجی، معاشی، سیاسی رتبہ عام شہریوں سے بڑھ کر ہو وہ اشرافیہ میں آتے ہیں، جن میں امراء، سیاست دان، بیورو کریٹ، فوجی افسران، مذہبی پیشوا، پادری، عدلیہ میں پوزیشن رکھنے والے افراداس میں شامل ہوتے ہیں۔
کارل مارکس نے اشرافیہ کے سماجی، سیاسی، معاشی رتبہ کے علاوہ دولت اور سرمایہ رکھنے والے اور منظور نظر افراد کو بھی اس گروہ شامل کیا ہے، سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اشرافیہ اچھی یا بری دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، اچھی شہرت کی حامل اشرافیہ کے تعامل سے ترقی پسند دور وجود میں آتا ہے بری اشرافیہ رجعت پسندی کو فروغ ملتا ہے اور افلاس بڑھتا ہے۔
بعض ماہرین نے اسکی کچھ اقسام کا تذکرہ بھی کیا ہے، جن میں قابل ذکر سیاسی، کاروباری، جاگیر داری، افسرشاہی، بدعنوان اشرافیہ شامل ہیں، مگران سب کے کام کرنے کا طریقہ “واردات” الگ الگ ہے، اس کا وجود زیادہ تر تیسری دنیا میں پایا جاتا ہے، اس لئے انکی خصوصیات بھی ذراوکھری ٹائپ کی ہیں لیکن جو قدر ان تمام میں مشترک ہے وہ ہے بدعنوانی اورختیارات کا ناجائز استعمال، جس کا بنیادی مقصد ذاتی مفادات کا حصول، ملکی اور قومی وسائل کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
جیسا کہ مکس ویبر نے کہا کہ یہ کلاس عام شہریوں سے رتبہ کے اعتبار سے بڑھ کر ہوتی ہے، اس لئے یہ اپنے خمار میں مبتلا ہوتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو طاقت اور وسائل پر قابض ہوتے ہیں، اسکی وساطت سے وہ بدعنوانی کے میدان میں اترتے ہیں ان کے لئے مالیاتی بدعنوانی کو انجام دنیا چنداں مشکل نہیں ہوتا، مذید دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، سرکاری منصوبہ جات میں گھپلوں سے دولت کے انبار لگا لیتے ہیں، جس سے سماج میں بے چینی جنم لیتی ہے۔
جہاں تک سیاسی اشرافیہ کا تعلق ہے یہ بھی قومی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں، اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اور سرکاری منصوبہ جات میں کمیشن لے کر دولت جمع کرتے ہیں، یہ طبقہ سیاسی اثر رسوخ کی وساطت سے قوانین کو اپنے فائدے کے لئے تبدیل کرواتا ہے، تاکہ ان قوانین کے فیصلوں سے عام شہری کی بجائے انکے قریبی حلقوں کے مفادات پورے ہوں۔
کاروباری اشرافیہ بھی کسی سے کم نہیں ہے، یہ گروہ مصنوعی قلت پیدا کرتا اور غیر معمولی قیمتیں بڑھاتاہے، ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کرتا، سرکاری ٹھیکہ جات میں ڈنڈی مارناانکی صفات میں شامل ہے۔
اسی طرح جاگیر دارنہ اشرافیہ اپنی دولت اور جاگیر کے خمار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ اپنے حلقہ کے عوام پر سیاسی، سماجی، قانونی طور پر اثرانداز ہوتا ہے، اپنی ہٹ دھرمی میں بعض اوقات یہ تمام قانونی اور اخلاقی حدود بھی پار کر جاتا ہے، حتی ٰ کہ اپنی مرضی کی سیاسی رائے دینے پر عوام کو مجبور کیا جاتا ہے۔
بیورو کریٹک اشرافیہ کا شمار اگرچہ پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے، مگر اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے “پیاروں” کو مفاد دینے میں اسے کوئی عار نہیں ہوتا ہے۔
اشرافیہ میں مگر باہم اتحاد مثالی ہوتا ہے، عوام سے اوجھل ان کا اپنا خفیہ نیٹ ورک ہوتا ہے، یہ سب اس طرح باہم جڑے رہتے ہیں اسی میں سب کا مفاد وابستہ ہوتا ہے، یہ مل کر بدعنوانی کو پروان چڑھاتے ہیں، باہم مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔
اس قماش کے لوگوں کی اولین کاوش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احتساب سے محفوظ رکھیں، اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے عدالتی نظام، تحقیقاتی اداروں پر بری طرح اثر انداز ہوں، میڈیا پر اپنی بے گناہی کا رونا رروتے رہیں، تاکہ حقائق عوام اور اداروں سامنے نہ آسکیں، اوریہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بدعنوان اشرافیہ کسی بھی ریاست، معاشرہ کے لئے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے ترقی، خوشحالی اور انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے اشرافیہ کی مذکورہ تمام اقسام ہماری ریاست میں نہ صرف پائی جاتی ہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کو اس نے جکڑ رکھا ہے جس کیوجہ سے عام شہری کا عرصہ حیات دن بدن تنگ ہوتا جارہا ہے، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے21مارچ1948 کو عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں کسی ایک طبقہ کو لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہیں ہوگی، یہاں بسنے والے ہرشخص کو ترقی کے یکساں مواقع ملیں گے، یہ ملک غریبوں نے بنایا ہے، انھیں ہی یہاں حکومت کرنے کا حق ہے، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، نوابوں کی لوٹ مار کے لئے یہ مملکت نہیں بنائی گئی، بانی پاکستان جب تلک حیات رہے اور گورنر جنرل کے منصب پر فائز رہے انھوں نے نہ تو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا نہ ہی سرکاری خزانہ سے کوئی مفاد لیا، آئین اور قانون کی مکمل پاسداری کی۔
دنیا سے رخصت ہوتے ہی انکی وفات کو موقع غنیمت جانتے اور آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے ہمہ قسم کا اشرافیہ متحرک ہوگیا، اسی کا فیض ہے کہ تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود مملکت کا ہر شہری مقروض ہے، مخصوص سیاسی کلاس نے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے پورے جمہوری نظام کو یرغمال بنا رکھاہے، دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے، کسان، سرکاری ملازمین، عام تاجر، چھوٹا صنعت کار، مزدور کی پریشانی دیدنی ہے، یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اقتدار سے لے اختیارات تک بری اشرافیہ کا قبضہ ہے، جو ایک دوسرے کے مفادات تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
آئین کی حاکمیت قانون کی حکمرانی سب کتابی باتیں ہیں، اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد تازہ ہوتی ہے، جس سے نجات کے لئے بانی پاکستان نے جددجہد کی اور عوام الناس نے قربانیاں دیں ریاست کے لئے دی گئی قربانیاں اشرافیہ کو اپنی حد میں رکھنے میں ناکام نظر آتی ہیں، منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے والی صورت حال سے سماج دوچار ہے، بُری اشرافیہ کی موجودگی میں عام شہری کی زندگی کس قدر اجیرن ہے، اس کا اندازہ اسکی حیات سے لگایا جاسکتا ہے جہاں مہنگی بجلی نوجواناں کی زندگی چھین رہی ہے، احمد ندیم قاسمی مرحوم کو کون بتائے
کہ اس ارض پاک پر عام شہری کی حیات اب جرم بن گئی ہے، مغرب کسی حد اشرافیہ سے نجات پاکر اپنی ریاستوں کو پوری دیانت داری سے فلاحی مملکت بنانے پر کار بند رہا، دنیا بھر کے امیگرنٹس وہاں راحت محسوس کرتے ہیں، ہمارے ہر شہری کا بھی یہی خواب ہے مگر اس میں اصل رکاوٹ اشرافیہ ہے۔