کشمیر کا مسئلہ برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک حل طلب عالمی تنازع ہے، جو نہ صرف دو ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق، انصاف، خودارادیت اور اقوام متحدہ کی ساکھ کے لیے بھی ایک مسلسل چیلنج بن چکا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیری عوام آج بھی اپنی آزادی، شناخت اور انسانی وقار کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
یہ وہ خطہ ہے جہاں ظلم، جبر، کرفیو، گرفتاریوں، میڈیا پر قدغن، انٹرنیٹ کی بندش، پیلٹ گنز سے نوجوانوں کو اندھا کرنے اور اجتماعی قبروں کے انکشافات جیسی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
5 اگست 2019 کو بھارت نے اچانک اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے دفعہ 370 اور 35A کو منسوخ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پوری وادی کو عملی طور پر فوجی چھاؤنی میں بدل دیا گیا۔ انٹرنیٹ، موبائل سروس، اخبارات، ٹی وی چینلز، مساجد، تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ ہزاروں نوجوانوں کو حراست میں لے لیا گیا اور سابق وزرائے اعلیٰ و دیگر سیاسی رہنما یا تو نظر بند کر دیے گئے یا جیل میں ڈال دیے گئے۔ اس وقت سے آج تک وادی میں آزادی اظہار، آزاد عدلیہ، انسانی وقار اور جمہوری اقدار شدید خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ وہ حالات تھے جن پر دنیا کی بڑی تنظیمیں جیسے ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور یورپی پارلیمنٹ نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔ مگر عملی اقدام کسی نے نہیں کیا، جس سے بھارت کو مزید ہمت ملی اور اس نے ظالمانہ اقدامات تیز کر دیے۔
2025 کے آغاز پر کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی جب 22 اپریل کو پاہلگام (ضلع اننت ناگ) میں یاتریوں اور شہریوں پر ایک مہلک حملہ ہوا جس میں 26 افراد جاں بحق ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور 6 سے 9 مئی کے دوران “آپریشن سندور” کے نام سے پاکستان کے مبینہ دہشت گرد ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی کارروائیاں کیں۔
ان کارروائیوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایل او سی پر شدید گولہ باری، ڈرونز کے حملے اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مؤثر سفارتی و دفاعی ردعمل دیا اور واٹر ٹریٹی سمیت دیگر معاہدات پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا۔
یہ کشیدگی اگرچہ امریکہ، برطانیہ، اقوام متحدہ اور او آئی سی کی ثالثی سے وقتی طور پر تھم گئی، مگر زمینی حقیقتیں اب بھی سلگتی آگ کی مانند ہیں۔
اسی دوران بھارت نے کشمیر میں ایک بار پھر “معمول” کا تاثر دینے کے لیے امرناتھ یاترا 2025 کا آغاز کیا، جس کے لیے 42 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار، ڈرون کیمرے، چہرہ شناس ٹیکنالوجی اور GPS سسٹم متحرک کیے گئے۔ مقامی عوام کو سخت چیک پوسٹس، نقل و حرکت کی بندش اور اندھادھند گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
امر ناتھ یاترا کی بحالی کو بعض حلقے “امن کی علامت” کہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے لیے یہ یاترا ریاستی طاقت کی نمائندگی کا ذریعہ بن چکی ہے جس کے دوران مقامی مسلمان آبادی کو ایک طرف ہٹایا جاتا ہے تاکہ ہندو یاتریوں کو سیکورٹی دی جا سکے۔
کشمیری سیاسی قائدین جیسے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وادی میں امن صرف فوجی طاقت سے نہیں بلکہ کشمیری عوام کے دل جیتنے سے آئے گا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کشمیر کا اصل مسئلہ یعنی حقِ خود ارادیت حل کیا جائے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت نے اگرچہ کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا ہے اور کٹھ پتلی قیادت کے ذریعے “نارملسی” کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ وادی آج بھی فوجی محاصرے میں ہے، نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے، خواتین خوف و ہراس میں زندگی گزار رہی ہیں اور اظہارِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر زندہ رکھا ہے۔ چاہے وہ اقوام متحدہ ہو، او آئی سی ہو، یا یورپی پارلیمنٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیر اب بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر خارجہ اور وزیر اعظم پاکستان نے بارہا دنیا کو یہ باور کرایا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
مگر دنیا کی بڑی طاقتیں، خصوصاً امریکہ اور یورپ، بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی و اسٹریٹیجک مفادات کی وجہ سے اس مسئلے پر کھل کر موقف اختیار نہیں کرتیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سویل سوسائٹی تو احتجاج کرتی ہے، مگر اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی محض قراردادیں پاس کرکے خاموش ہو جاتا ہے۔
آج کی تاریخ تک، کشمیر ایک ایسی کھلی جیل ہے جہاں انسانوں کے بنیادی حقوق سلب کیے جا چکے ہیں۔ وہاں کی مساجد کو تالے لگائے جا چکے ہیں، مدارس پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، صحافیوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
کشمیر میں نہ صرف اقلیتوں بلکہ مسلمانوں کی اکثریت بھی ریاستی جبر کا نشانہ بن رہی ہے۔ بھارتی فوج کو AFSPA جیسے کالے قوانین کے تحت مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت بھارتی فوجی عام شہریوں کو مارنے کے بعد بھی عدالتوں میں پیش نہیں کیے جاتے۔
سیاسی اعتبار سے بھی وادی میں کوئی مستند یا آزاد آواز باقی نہیں بچی۔ تمام قومی و حریت قیادت یا تو جیلوں میں ہے یا نظر بند۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
حل صرف ایک ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دیا جائے۔ ایک آزاد، منصفانہ، غیر جانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری خود فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ یا کسی آزاد حیثیت میں رہنا چاہتے ہیں۔
جب تک یہ حق نہیں دیا جاتا، تب تک کشمیریوں کی جدوجہد جاری رہے گی۔ دنیا چاہے خاموش رہے یا بھارت جھوٹے بیانیے گھڑتا رہے، سچائی یہ ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔
اس بات کو پاکستانی قوم کے ہر فرد کو سمجھنا چاہیے کہ کشمیر صرف ایک سرحدی تنازع نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، یہ ایک ایمانی مسئلہ ہے اور یہ ایک تہذیبی مسئلہ ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہر فورم پر، ہر زبان میں، ہر موقع پر کشمیر کی آواز بلند کریں۔ سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات تک، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی پارلیمنٹ تک، تعلیمی اداروں سے لے کر سفارتی محاذوں تک ہمیں کشمیریوں کا مقدمہ لڑنا ہوگا۔
یہ وقت خاموشی کا نہیں، عملی اقدام کا ہے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے کشمیریوں کا ساتھ نہ دیا تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
کشمیر کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ایک دن آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ کیونکہ سچائی، قربانی اور حریت کی شمعیں کبھی بجھتی نہیں، وہ راہوں کو روشن کرتی ہیں، چاہے اندھیرے کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں۔