تحریر۔سید مجاہد علی
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے نیا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے۔ حسب توقع معاشی استحکام حاصل کرنے اور معیشت بہتری کی طرف گامزن کرنے کے دعوؤں کے درمیان ملک کا ہر شہری خود اپنے لیے حاصل ہونے والی سہولتیں تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس مقصد میں شاید کسی کو بھی کوئی خاص کامیابی نہیں ہوگی۔
بھارت کے ساتھ حالیہ چپقلش کی روشنی میں قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ مصارف 2550 ارب روپے ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ تنازعہ کی موجودہ صورت حال میں شدید مشکلات کا شکار معیشت پر دفاعی اخراجات میں اضافہ پر حرف زنی ممکن نہیں ہے لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کی کل آمدنی 11000 ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور بجٹ کا حجم اٹھارہ ہزار ارب روپے ہے۔ اس طرح 6500 ارب روپے کا خسارہ قرض لے کر پورا کیا جائے گا۔ برصغیر میں تناؤ اور جنگی حالات پیدا کرنے والے دونوں ملکوں کے لیڈروں کو سوچنا چاہیے کہ یہ بیش قیمت وسائل غریب لوگوں کی سہولت، تعلیم عام کرنے اور فلاحی منصوبوں پر صرف ہوسکتے ہیں۔
بجٹ خسارہ کی بنیادی وجہ دفاعی اخراجات بڑھانے کے علاوہ واجب الادا قرضوں پر سود و اصل زر کی مد میں 8207 ارب روپے کا مصرف ہے۔ یہ ملک کی اصل آمدنی کا 70 فیصد ہے۔ حالیہ بجٹ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم مالیت کا ہے یعنی گزشتہ سال کے 18877 کے مقابلے میں اس سال کا کل بجٹ 17573 روپے کا ہے۔ اندازے کے مطابق یہ 7 فیصد کمی ہے۔ حکومت سرکاری اخراجات میں کمی، قرضوں کی مد میں ادائیگیوں پر کنٹرول اور غیر پیداواری اداروں کی نجکاری کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ عمومی طور سے بجٹ متوازن اور کسی حد تک غیر دلچسپ اعداد و شمار کا بکھیڑا ہے جس سے ملک کا کوئی شہری اگر مطمئن نہیں ہو گا تو شاید اس پر مزید معاشی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ بدترین حالات سے بہتری کی طرف سفر کرتے ہوئے ملکی معیشت کے بارے میں یہ ایک حوصلہ افزا اشارہ ہو سکتا ہے۔
البتہ حکومت اس ایک اشارے کو اپنی شاندار کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے جس کا وزیر خزانہ کی تقریر میں تواتر سے ذکر موجود تھا۔ دیگر باتوں کے علاوہ محمد اورنگ زیب نے لاتعداد مواقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کے ویژن کا ذکر کیا اور قوم کو بتانے کی کوشش کی کہ یہ ساری تبدیلیاں شہباز شریف کی اعلیٰ قیادت کے سبب ممکن ہو رہی ہیں۔ پاکستانی قوم ایسے دعوے سننے کی عادی ہے۔ اس لیے یہ باتیں نہ تو حقیقت کے قریب ہیں اور نہ ہی ان سے اب کسی کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر وزیر خزانہ، وزیر اعظم کو ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں تو کوئی ان کی زبان بند نہیں کر سکتا۔ البتہ تحریک انصاف پر مشتمل تحریک انصاف نے بجٹ تقریر کے دوران مسلسل شور مچا کر اور بجٹ کو جعلی حکومت کا جعلی بجٹ قرار دے کر اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اپوزیشن کے اس رویہ سے بجٹ میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اپنی عددی برتری کی بنیاد پر اگر سنجیدگی سے بجٹ اجلاس میں شریک ہو اور ذمہ دار سیاسی پارٹی کے طور پر بعض نکات میں تبدیلی اور عوام کو کچھ سہولتیں دلانے کے لیے کام کرسکے تو شاید یہ بہتر طرز عمل ہو گا۔ اس کے برعکس بجٹ اجلاس کا آغاز ’عمران خان کو رہا کرو‘ کے نعروں سے ہوا۔ حالانکہ کوئی وزیر خزانہ کسی بجٹ تجاویز میں کسی قیدی کی رہائی کا پیغام نہیں سنا سکتا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے۔ ہم نے پورے جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ اُسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔ ہم نے سوا سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے۔ معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔ مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ گیلپ کے مطابق پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور ہاؤس ہولڈ فنانشل آؤٹ لک میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئی پی ایس او ایس سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر منفی بی کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے، موڈیز نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔
قومی اقتصادی سروے کی طرح بجٹ میں بھی وزیر خزانہ نے مہنگائی اور شرح سود میں قابل ذکر کمی اور روپے کے استحکام کو معاشی استحکام کے اشارے کے طور پر پیش کیا۔ لیکن بجٹ میں افراط زر میں موجودہ ساڑھے چار فیصد کی شرح میں اضافہ کا اشارہ موجود ہے جو سرکاری اندازے کے مطابق 7 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی طرح شرح سود میں اضافہ کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ اشاریے اگر ملک میں صنعتی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ کا سبب نہیں بنتے، پھر یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ معاشی خرابیوں پر وقتی طور سے قابو پایا گیا ہے اور بنیادی ڈھانچہ میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بھی یہی اندازہ کر رہی ہے کہ مہنگائی بھی بڑھے گی اور شرح سود میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ پہلو وزیر خزانہ کے ان دعوؤں کے برعکس ہے جن میں وہ ٹیکس وصولی نظام کو شفاف اور ڈیجیٹل کر کے قومی آمدنی میں مسلسل اضافے اور محاصل کی وصولی میں کرپشن ختم کرنے کی نوید سنا رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بجٹ پیش ہونے سے قبل کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی اور قومی بجٹ کی حتمی منظوری دی گئی۔ اس موقع پر حسب عادت شہباز شریف نے جذباتی انداز میں باتیں کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’ملک کے غریب اور محروم عوام نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے بے پناہ ایثار کیا ہے اور قربانیاں دی ہیں۔ اب مجھ سمیت ملک کی اشرافیہ کو سوچنا چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کے لیے کیا کر رہی ہے یا اس کا کیا کردار ہے؟‘ جیسا کہ ایسی تقریروں میں ہوتا ہے کہ سوال کی حد تک منشور سنائی دیتا ہے لیکن حقیقی تصویر میں ان جذبوں کا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے قومی معیشت کے لیے اشرافیہ کی ذمہ داریوں کے حوالے سے نہ تو وزیر اعظم نے کابینہ میں کوئی جواب فراہم کیا اور نہ ہی بجٹ دستاویز یا وزیر خزانہ کی تقریر میں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے کارپوریٹ ٹیکس میں رعایت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ رعایت ملک کے دولت مندوں کو فائدہ پہنچانے ہی کا سبب بنے گی۔ اس بار بھی حکومت کوئی ایسا معاشی میکنزم متعارف نہیں کرا سکی جس سے ملک کے انتہائی دولت مندوں سے اضافی حصہ وصول کیا جائے۔ یا بلیک معیشت کے سبب دولت کمانے والے عناصر کا خاتمہ کرنے کا امکان پیدا ہو۔ وزیر خزانہ نے بجٹ میں نان فائلرز کی اصطلاح ختم کرنے کا اعلان ضرور کیا ہے جس سے کسی بھی مالی و سماجی سہولتوں کے لئے ٹیکس ادائیگی کے لیے رجسٹر ہونا یعنی فائلر ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ امکان موجود نہیں ہے کہ یہ ایک اعلان ملک میں کالے دھن کا خاتمہ کرنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ بجٹ تجاویز میں کوئی ایسی تجویز موجود نہیں ہے جو قومی آمدنی میں حصہ ادا کیے بغیر امیر کبیر ہونے والے لوگوں کی گرفت کا کوئی نظام وضع کر سکتی۔
ملکی برآمدات کا تخمینہ موجودہ 27 کے مقابلے میں 35 ارب ڈالر ہے جبکہ درآمدات پر 65 ارب ڈالر صرف ہوں گے۔ یہ فرق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر اور قرض لے کر پورا کیا جائے گا۔ ترسیلات زر 39 ارب ڈالر تک پہنچنے کی نوید دی گئی ہے اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے یہ کارنامہ کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کچھ سہولتیں دینے کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیاد پر استوار کرنے کے لیے قومی آمدنی میں ٹھوس اضافہ کی ضرورت ہے جس کا تخمینہ 4.2فیصد ہے۔ گزشتہ مالی سال میں قومی پیداوار میں اضافہ کا ہدف 3.6 مقرر تھا لیکن یہ 2.7 فیصد رہی تھی۔ یہ رفتار ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ضرورتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اسی لیے ہر حکومت کو اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے ریکوڈک منصوبے کو گیم چینجر بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں۔ حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025 میں مکمل کی گئی اور متوقع کان کنی کی مدت 37 سال ہے جس کے دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے کیش فلو حاصل ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی کام میں 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہوں گی۔ منصوبے سے کمیونٹی پروگراموں، مقامی خریداری ماحولیاتی حفاظتی اقدامات اور معاونت کے ذریعے نمایاں سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول ممکن ہو گا۔ اس منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7.8 ارب ڈالر کی رائلٹی متوقع ہے۔ یہ منصوبہ برآمدات میں اضافہ کا سبب بھی بنے گا۔
تاہم وزیر خزانہ یہ حوالہ دینا بھول گئے کہ جس بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کے ذریعے ملک کی معاشی تقدیر تبدیل کرنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے، وہاں پائی جانے والی سیاسی بے چینی کا کوئی حل تلاش کرنے کے لیے کام نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی بلوچستان کے ساتھ اس صوبے سے ملنے والے وسائل کی تقسیم کے کسی فارمولے پر اتفاق ہوا ہے۔ ایسے کسی اتفاق رائے کے بغیر ریکوڈک اور بلوچستان میں شروع کیے جانے والے تمام قومی اقتصادی منصوبے مسلسل عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار رہیں گے۔ بجٹ تقریر میں ریکوڈک سے وفاق کو حاصل ہونے والے وسائل کا حوالہ موجود ہے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ صوبے کو اس میں کتنا حصہ ملے گا؟
اختصار سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ نیا قومی بجٹ آمدنی و اخراجات کا محتاط تخمینہ ہے۔ حکومت ملکی معیشت میں کسی ڈرامائی تبدیلی کے لیے کوئی سخت اور بڑے فیصلے میں ناکام رہی ہے۔ اسی طرح مستقبل میں خوشحال معیشت کے تخمینے زیادہ تر خوش کن اندازوں اور قیاسات پر مبنی ہیں۔ جو درست بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ اندازے غلط ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔