تحریر ۔آصف منور
جب سوات کی وادی میں بہار آتی ہے تو پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے دریا شور مچاتے ہیں اور سرسبز وادیاں زندگی کا نغمہ گاتی ہیں۔ مگر افسوس کہ آج وہی وادی ایک اور بھیانک سانحے سے لرزاں ہے۔ سوات جہاں پہاڑ آسمان سے باتیں کرتے ہیں، دریا گنگناتے ہیں، اور زندگی ایک خوبصورت خواب کی مانند رواں دواں رہتی ہے۔ لیکن جون 2025 کا اختتام اس خواب کو خوفناک حقیقت میں بدل گیا۔ وہی دریا جو سیاحوں کے لیے خوشی کا پیغام ہوتا تھا اچانک موت کا سندیسہ بن گیا۔
جون کی ایک سہ پہر سوات کے ایک پکنک پوائنٹ پر موجود ایک خاندان جس میں خواتین، مرد اور معصوم بچے شامل تھے دریا کے کنارے فطرت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے نے سب کچھ بہا دیا۔ کئی افراد جاں بحق ہوئے کچھ لاپتہ ہیں اور جو بچے وہ بھی اس صدمے سے نڈھال ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کہانی کا سب سے کربناک پہلو یہ نہیں کہ دریا نے جانیں لیں بلکہ یہ ہے کہ ریاست جس کا فرض تھا حفاظت وہ تماشائی بنی رہی۔
سیلابی ریلا اچانک نہیں آتا خاص طور پر جب موسمیاتی پیش گوئیاں مسلسل خبردار کر رہی ہوں۔ اس کے باوجود موقع پر نہ کوئی ریسکیو ٹیم موجود تھی نہ بروقت امداد پہنچی۔ 1122 کی ٹیم تاخیر سے پہنچی اور وسائل کی شدید کمی کا شکار نکلیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے نہ کوئی پیشگی وارننگ سسٹم فعال تھا نہ ہی متاثرہ علاقوں میں سائن بورڈز یا حدود بندی کی گئی تھی۔ محض چند افسران کو معطل کر دینا کافی نہیں اصل سوال یہ ہے کہ پورا نظام ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کیوں نہیں تھا۔
یہ خیبرپختونخوا حکومت کی مکمل نااہلی کا ثبوت ہے جس نے صرف بیانات اور پریس کانفرنسوں تک خود کو محدود رکھا ہے جبکہ پبلک مرتی رہی۔ ریاست پیچھے ہٹ گئی لیکن مقامی لوگ آگے آئے۔ وہ نوجوان جو اپنی جان پر کھیل کر دریا میں اترے وہ بزرگ جو اپنے گھروں سے رسی، لکڑیاں اور کمبل لے کر پہنچے وہ خواتین جو زخمیوں کو پانی، چائے اور مدد دیتی رہیں یہ سب ہمارے اصل ہیرو ہیں جنہیں میڈیا کی سرخیوں میں جگہ نہیں ملتی۔ اگر کچھ زندگیاں بچیں تو وہ ریاستی نظام کی بدولت نہیں بلکہ عوامی ہمدردی، جذبے اور جرات کی وجہ سے۔
یہ قدرتی آفت نہیں، انسان کا بنایا ہوا المیہ تھا۔ ماحولیاتی ماہرین برسوں سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں غیر منظم سیاحت، ندی نالوں کے کنارے غیرقانونی تعمیرات، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور ناقص منصوبہ بندی بڑے حادثات کو جنم دے گی۔ لیکن نہ وفاقی حکومت نے سنجیدگی دکھائی نہ ہی صوبائی انتظامیہ نے طویل المدتی اقدامات کیے۔ سوات جیسے حساس علاقے میں پکنک پوائنٹس کو ریگولیٹ کرنا خطرناک مقامات پر پابندی لگانا اور ایمرجنسی ٹیموں کو متحرک رکھنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے جو مکمل طور پر نظر انداز ہوئی۔
سوال یہ نہیں کہ سوات کے دریا میں کتنے لوگ ڈوبے، سوال یہ ہے کہ ریاست کب جاگے گی؟ کیا ہر سانحہ صرف ایک عدد بن کر رہ جائے گا؟ کیا ہر ماں کی چیخ محض ایک وائرل ویڈیو کا مواد بنے گی؟ سوات کا دریا اب صرف پانی نہیں بہا رہا وہ ریاستی بے حسی، انتظامی غفلت اور انسانی جانوں کا ماتم بہا رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے سبق نہ سیکھا، تو یاد رکھیں، قدرت کی گواہی ہر بار اتنی خاموش نہیں ہوگی۔ اگلی بار شاید آپ یا میں کسی دریا کے بیچ کھڑے ہوں۔ اور ریاست پھر سوتی رہے۔ شہری جواب مانگتے ہیں۔