ہمارے ملتان کے شاعر، ادیب، صحافی اور کالم نگار رضی الدین دیکھنے میں اس شعر کی تصویر لگتے ہیں
چائے پیتا ہے شعر کہتا ہے
اور شاعر میں کیا برائی ہے
لیکن کام وہ بڑے بڑے کرتے ہیں اور ملتان کے ادبی اور کلچرل رنگ کو جمائے رکھتے ہیں۔ ملتان کا ادبی یا کلچرل رنگ رضی اور شاکر حسین شاکرکے بغیر ادھورا ہے۔
ملتان میں ہی کچھ برس قبل ہی ڈاکٹر انوار احمد اور ان کے دو تین ہونہار شاگردوں نے ادبی رسالہ نکالا۔ بڑا اچھا رسالہ تھا۔ پنجابی، سرائیکی اردو اور انگریزی تراجم سب رنگ تھے۔ خیر کچھ عرصہ کے بعد فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ اب یہ بھاری پتھر رضی الدین رضی نے اٹھایا ہوا ہے اور “گردوپیش” کے نام سے ایک رسالہ نکال رہے ہیں۔
اس دفعہ انہوں نے استاد محترم ڈاکٹر اے بی اشرف مرحوم پر شمارہ ترتیب دیا ہے جس میں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نجیب جمال، رانا محبوب اختر، نعیم اشرف، ڈاکٹر لیاقت علی، رضی الدین رضی کی اپنی تحریر کے علاوہ جو اہم خاکہ ہے وہ اصغر ندیم سید کا اے بی اشرف پر لکھا گیا ہے۔
میں گزرے زمانوں کے خوبصورت خاکے پڑھنے کا شوقین ہوں اور خاکوں کا جو معیار بھارت کے فلم لکھاری جاوید صدیقی نے “روشن دان” اور “لنگر خانے” میں طے کر دیا تھا وہ اپنی جگہ کمال ہے جسے بک کارنر جہلم نے اب “میرے محترم” کے نام سے چھاپا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد کے خاکے “یادگار زمانہ ہیں وہ لوگ “بھی کمال کی تحریریں ہیں۔ پھر جو شاندار خاکے اصغر ندیم سید نے لکھے وہ کتابی شکل میں “فلک پھرتا ہے برسوں” سنگ میل لاہور نے چھاپے۔
اصغر ندیم سید کا قلم بھی بے رحم ہے اور مجال ہے کسی کے ساتھ رعایت رکھے۔ ڈاکٹر انوار احمد اور اصغر ندیم کے خاکے پڑھ کر وہی محاورہ ذہن میں آیا تھا کہ پولیس کی طرح ان دونوں لکھاریوں کی بھی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی۔
خیر بات ہورہی تھی ڈاکٹر اے بی اشرف پر لکھے خاکے کی۔ اس میں اصغر ندیم سید اپنے باپ کے بارے لکھتے ہیں “میرے والد مجھے زندگی سے ڈراتے تھے۔ سوات جانا تھا تو اے بی اشرف کو سفارش کے طور پر لے گیا۔ والد نے کہا ناں ناں ناں یہ وہاں دریا میں ڈوب جائے گا میں کہاں اس کی لاش ڈھونڈتا پھروں گا۔ پہلی بار کراچی جانا تھا تو میرے دوست سفارش کو آئے تو کہا ناں ناں یہ سمندر میں ڈوب کے مر جائے گا۔ مچھلیاں اس کا جسم کھائیں گی۔ دفنائیں گے کیا؟ لاہور جانے کی سفارش کی گئی تو کہا ناں ناں ناں یہ راستہ بھول جائے گا۔ کوئی خرکار اٹھا کر لے جائے گا۔ میں کہاں تھانوں کے چکر کاٹتا پھروں گا اور پھر تیس سال بعد جب یہ ملے تو کیسے پہچانوں گا”۔
اصغر ندیم پوچھتے ہیں پتہ نہیں میرا باپ مجھے اتنا “لل” (سرائیکی ہی اس کا مطلب سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں) سمجھتے تھے۔
سوات میں ایک ہی خاندان کے اٹھارہ عورتوں بچوں سمیت جو خوفناک مناظر دیکھنے کو ملے ہیں تو شاید اصغر ندیم سید کو برسوں بعد جواب مل گیا ہوگا۔
اب تو واہمی باپ تو اچھے لگنے شروع ہو گئے ہیں۔ آج اگر اصغر ندیم سید کے والد حیات ہوتے تو وہ اس ویڈیو کو ان کے سفارشی دوستوں کو ضرور دکھاتے کہ انہیں گھر سے کیوں دور نہیں جانے دیتے تھے۔
سرائیکیوں میں جو پردیس جانے کا خوف ہے وہ مونجھ اور انہی افسوسناک واقعات سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارا ولن پردیس ہے جہاں سے ہمارے ماں باپ کو بچے کے دریا یا سمندر میں ڈوبنے کا خوف تو کہیں راستہ بھول کر عمر بھر گھر نہ لوٹنے کا ڈر تھا۔۔ یہ صرف ایک واہمی باپ نہیں تھا بلکہ صدیوں سے جنوب کے خوفزدہ والدین کے دلوں میں بیٹھا وہ خوف تھا کہ ہمارے بچے اپنے محفوظ گھروں سے پردیس گئے تو پھر سلامت نہیں لوٹیں گے۔ لہذا اپنے گھونسلے میں رہیں جس کا خیال وہ خود رکھیں گے۔ اگر گھونسلے سے گرے تو کوئی موت کے فرشتے کا روپ دھارے ظالم چیل اٹھا کرکے جائے گی۔
اصغر ندیم سید کا باپ اسے “لل” نہیں سمجھتا تھا بلکہ یہ پردیس کے ظالموں کا خوف تھا۔ پردیس کے ہاتھوں اپنے بچے کھونے کا خوف تھا۔ اپنی اولاد کھونے کا خوف تھا جیسے سوات میں سیالکوٹ کا خاندان سب کچھ کھو بیٹھا۔