مخصوص نشستوں کے بارے میں آئینی بنچ کا فیصلہ آنے کے بعد میری کئی لوگوں سے گفتگو ہوئی۔ علاوہ ازیں اس فیصلے کی بابت ریگولر اور سوشل میڈیا پر نمایاں ہوئے تنقیدی خیالات بھی بہت غور سے سنے اور پڑھے ہیں۔ حکومتی اتحاد کے حامیوں کے برعکس بہت سے ایسے خواتین وحضرات جن پر عمران خان کے حامی ہونے کی تہمت لگانا ممکن ہی نہیں مذکورہ فیصلے کے بعد دُکھی اور شکست خوردہ سنائی دے رہے ہیں۔ ان کی دانست میں فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد نمودار ہوئے حکومتی بندوبست نے بالآخر اپنی بقاء اور طوالت کو یقینی بنالیا ہے۔
“عوامی تحریک” کے ذریعے اس کو ختم یا تبدیل کرنے کی گنجائش کم سے کم تر ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود امید یہ باندھی جارہی ہے کہ شاید عدالتوں کے چند “آزاد منش” منصفین ہماری سیاست، بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار وغیرہ کی بحالی ممکن بنائیں گے۔ آئین میں ہوئی 26ویں ترمیم نے اگرچہ اس امید کو بھی کمزور کردیا ہے۔ کلیدی پیغام یہ مل رہا ہے کہ آئندہ کئی برسوں تک ہمیں سرجھکائے موجودہ حکومتی بندوبست ہی کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔
مذکورہ بالا خیالات تواتر سے سننے کے بعد پریشان ہوگیا۔ پریشانی کے اس عالم میں معروف ڈرامہ نگار شیکسپیئر سے ہر عقدہ کا حل تلاش کرنے والے ایک مہربان دوست کا واٹس ایپ پیغام آگیا۔ اس کا عنوان تھا کہ “ابتری غیر انصافی(کو بے شمار)” جوازفراہم کرتی ہے۔ مزید لکھنے سے قبل مذکورہ عنوان کی حمایت میں انہوں نے جرمنی کے مشہور شاعر نطشے کا ایک قول بھی نقل کیا جس میں انقلابی جذبوں کو اُکسانے والے اس شاعر نے نہایت ڈھٹائی سے اعتراف کیا کہ وہ “ناانصافی” کو “ابتری (انتشار وخلفشار)” پر ترجیح دے گا۔ نطشے کے بیان کردہ قول کو دہرانے کے بعد میرے دوست پاکستان کی تاریخ پر انتہائی خوب صورت وتخلیقی زبان میں تبصرہ آرائی میں مصروف ہوگئے۔ آغاز اپنے تبصرے کا جسٹس منیر کے متعارف کردہ “نظریہ ضرورت” سے کیا جس نے 1950ء کی دہائی میں پاکستان کو اس ڈگرپرڈالا تھا جس کا انجام ان دنوں ہم “ہائی برڈ” نظام کی صورت بھگت رہے ہیں۔
دوست کا پیغام غور سے پڑھنے کے بعد مجھے “ناانصافی” اور “ابتری” کے درمیان تعلق منطقی محسوس ہونے لگا۔ اس کے بعد اچانک ذہن میں خیال آیا کہ جسٹس منیر کے “نظریہ ضرورت” سے قبل لاہور میں “جزوی مارشل لاء” بھی تو لگاتھا۔ وجہ اس کی ایک مذہبی گروہ کا تحفظ بتائی گئی تھی۔ اس مارشل لاء نے جس سرعت سے لاہور میں نظم ونسق بحال کیا اس نے اکتوبر195ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی مارشل لاء کی بدولت قوم کے پہلے “دیدہ ور” کی حیثیت میں نمودار ہونے کی راہ بنائی۔ ان کا “عشرہ ترقی” مگر اپنے انجام پر ایک عوامی تحریک کے سامنے بے بس ہوگیا۔ ان سے ایک اور فوجی آمر نے استعفیٰ لے کر مارشل لاء لگایا۔ ملک کو “مزید ابتری” سے بچانے کے لئے 1962ء کا آئین توڑا۔ ون یونٹ کی جگہ موجودہ صوبے بحال ہوئے۔ بالآخر نئے انتخابات ہوئے۔ وہ ہماری تاریخ کے شفاف ترین انتخابات شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے نتائج مگر قبول نہ ہوئے۔ مشرقی پاکستان اس کی وجہ سے بھارتی فوجی مداخلت کے بعدبنگلہ دیش بن گیا۔
بنگلہ دیش کے قیام نے بھی اس ملک کو موثر جمہوری نظام نہیں بخشا۔ اس ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمن اپنے گھر میں خاندان سمیت مارے گئے۔ ان کے بعد مارشل لاء پہ مارشل لاء لگے۔ جنرل مجیب کی جو بیٹی-حسینہ واجد- بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ نکلی تھی بالآخر وطن لوٹی۔ اقتدار میں آئی تو ایک اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بیوہ کی بنائی جماعت کی وجہ سے مستحکم حکومت قائم نہیں کرپائی۔ دونوں بیگمات نے برسوں تک بنگلہ دیش کو ہر اعتبار سے مفلوج بنائے رکھا۔ دریں اثناء ڈاکٹر یونس کا گرامین بینک قائم ہوا۔ اس کی بدولت عورتوں میں تعلیم حاصل کرنے اور سستی اجرت پر کام کرتے ہوئے گھریلو خرچ میں حصہ ڈالنے کا چلن متعارف ہوا۔
جو کھیپ ڈاکٹر یونس نے تیار کی اس کی بدولت سیٹھوں نے بنگلہ دیش کو ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد کا سب سے بڑا مرکز بنادیا۔ معاشی استحکام نے حسینہ واجد کی سیاسی حکومت کو مستحکم رہنے کے 15سال بھی دئے۔ ان برسوں کے دوران عوامی لیگ کے ہرناقد کو چن چن کر عدالتوں کی مدد سے قتل کیا گیا۔ طویل عرصے تک پھیلااقتصادی اور سیاسی نظام بھی لیکن اب دھڑام سے گرچکا ہے۔ حسینہ واجد ملک سے فرار ہوچکی ہیں۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ زندگی کیسے معمول کے مطابق بحال ہو۔ منتخب حکومت کے قیام میں تاخیر ہورہی ہے۔ لوگ “آزاد” ہیں مگر زندگی “ابتر”۔ اسی باعث خدشات جنم لے رہے ہیں کہ بنگلہ دیش غالباََ ایک بار پھر مارشل لائی نظام تلے آسکتا ہے۔
ہمارے ہاں 2008ء سے تقریباََ 2014ء تک سیاست “معمول” پر آئی محسوس ہورہی تھی۔ جو نظام چلا اس کا اصل فائدہ مگر سپریم کورٹ کے ججوں نے اٹھایا۔ افتخار چودھری قوم کے ہیرو بنے۔ ان کے عروج کے دنوں میں عمران خان کی تحریک انصاف بھی دن دگنی رات چگنی مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ تمام جانے پہچانے سیاستدان اس جماعت نے “چور اور لٹیرے” ثابت کردئیے۔ عدلیہ نے یہ کہانی فروغ دینے میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے یوسف رضا گیلانی کے علاوہ نواز شریف بھی عوام کے ووٹوں سے تیسری بار منتخب ہونے کے باوجود سیاست میں حصہ لینے کے نااہل ٹھہرائے گئے۔
ثابت ہوگیا کہ وطن عزیز میں “ووٹ” نہیں ریاست کے دائمی ادارے ہی حکومتی بندوبست چلانے کے ہنر سے مالا مال ہیں۔ دائمی ادارے مگر عمران خان کے ساتھ “ایک پیج” پر موجود رہ کر ملک سنوارنے کا ڈرامہ رچاتے رہے۔ 2018ء کے اگست سے اکتوبر2021ء تک پہنچے تو “مزہ” نہیں آیا۔ “موروثی سیاست” کا مخالف اور “تبدیلی” کا علمبردار ملک کو دیوالیہ کی جانب دھکیلنے کا ذمہ دار ٹھہرا کر گھر بھیج دیا گیا۔ جسے گھر بھیجا تھا اسے مگر قمر جاوید باجوہ دل کے قریب بھی رکھنا چاہتے تھے تاکہ اپنے منصب پر تعینات رہتے ہوئے وہ “چلمن کے پیچھے ” سے نظام حکومت چلاتے رہیں۔
موصوف کی دوعملی نے برطرف کئے فرد کو انہیں “میر جعفر” پکارنے کا موقع عطا کیا۔ بتدریج حقائق عیاں ہوئے تو احساس ہوا کہ پاکستان کو اپنی معاشی بقاء کے لئے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ایک بھاری بھر کم پیکیج لینا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ لوگ مضطرب ہوکر عمران خان کا زمانہ یاد کرنے لگے۔ جذباتی فضا میں ہوئے فروری 2024ء کے انتخابات کا نتیجہ مگر “ابتری” کی مخالف قوتوں کو پسند نہیں آیا۔ “ریاست بچانے” کے نام پر پے در پے اقدامات لئے گئے ہیں۔
عمران خان کے نام پر بے تحاشہ ووٹ لینے والے ان کا توڑ مگر ڈھونڈ نہیں پائے۔ ججوں سے شفا مانگی جو بقول جالب “علاج غم نہیں کرتے فقط، (ریمارکس دیتے ہیں)”۔ اس کے علاوہ امیدیں باندھی گئیں ٹرمپ سے جو فیلڈ مارشل کے امریکہ داخلے پر پابندی لگانے کے بجائے انہیں لنچ پر مدعو کرنا “اعزاز” تصور کرتا ہے۔ موجودہ حکومتی بندوبست کے ساتھ لہٰذادل کڑا کرتے ہوئے گزارہ کرنا پڑے گا۔