صحافت پر اثر انداز ہوتے سوشل میڈیا کے مخالف پلیٹ فارم

آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا کے میری عمر کے افراد کو “منفی” نظر آنے والے اثرات کے بارے میں ایک اور کتاب کی تلخیص پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ کتاب کا نام ہے “On Freedom” (آزادی کے بارے میں)۔ یہ کتاب امریکہ کی مشہور Yaleیونیورسٹی کے ایک دھانسوپروفیسر Snyder D. Timothy نے لکھی ہے۔ اپنی آسانی کے لئے ہم اسے ٹموتھی پکارلیتے ہیں۔ موصوف ماہر تاریخ ہیں اور تاریخ ہی کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے رہے کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم انسانی ذہن کو ارتقاء کی جانب لے جارہے ہیں یا نہیں۔

برسوں کی تحقیق کے بعد بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوشل میڈیا کے تمام ترپلیٹ فارم درحقیقت گھر میں تنہا، اداس وپریشان بیٹھے “انقلابیوں” کو ٹویٹر وغیرہ پر چند جلے بھنے الفاظ لکھ کر اس مغالطے میں مبتلا کردیتے ہیں کہ وہ معاشرے کو “بہتر” بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ معاشرے کی بہتری سے کہیں بڑھ کر سوال فرد کی آزادی کا بھی ہے۔ ٹموتھی آزاد خیال ہوتے ہوئے اس کے بارے میں زیادہ فکر مند تھا۔ گہری تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ سوشل میڈیا فرد کو “منفرد” ہرگز نہیں بناتا۔ دھیرے دھیرے اسے بلکہ ایک مخصوص “ریوڑ” کا حصہ بنادیتا ہے۔ اس “ریوڑ” سے منسلک افراد بتدریج یہ سوچتے ہوئے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ لوگوں کی “اکثریت” ویسے ہی خیالات کی حامل ہے جوا نہیں بہت عزیز ہیں۔

سوشل میڈیا پر آپ کے لکھے خیالات کے “شیئرز” اور لائیکس اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ اس میڈیا کو استعمال کیا۔ اس کی بدولت ٹویٹر، فیس بک یایوٹیوب کھولنے کے چند ہی لمحوں بعد آپ کو گماں ہوتا ہے جیسے لوگوں کی بے پناہ تعداد فقط کرکٹ کی بدولت کرشمہ ساز ہوئے سیاستدان کی متوالی ہے۔ کرشمہ ساز کی محبت میں اسیری نے مگر سیاسی تبدیلی یقینی نہیں بنائی۔ اس حقیقت کا اندازہ عقل والوں کو 8فروری 2024ء کی رات ہوگیا تھا۔ ریاست کے دائمی اداروں نے یکسوہوکر تحریک انصاف کی حمایت میں اٹھی لہر کو سمندر کی اس لہر میں بدل دیا جو ساحل تک بہت تیزی تک پہنچنے کے بعد دھیرے سے واپس لوٹ جاتی ہے۔

ٹموتھی کا اصرار ہے کہ فرد کی آزادی، نئے خیالات کی تلاش اور معاشرتی تبدیلی سوشل میڈیا کا کلیدی مقصد ہی نہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے برانڈڈ اشیاء بنانے والے درحقیقت اس میڈیا کی حرکیات کی بدولت یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ کیسے دِکھنا، کونسے کپڑے اور جوتے پہننا چاہتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں بسی دنیا کو سوشل میڈیا نے نہایت ذہانت سے سرمایہ کاروں کو ایسی مصنوعات بناکر بازار میں ڈالنے میں مدد دی جو لوگوں نے بتدریج اپنے لئے “ضرورت” محسوس کرنا شروع کردی۔ مثال کے طورپر جب سے موبائل فون آیا ہے آپ کو وقت جاننے کے لئے منطقی اعتبار سے کلائی پر بندھی گھڑی کی ضرورت نہیں رہی۔

اس کے باوجود آپ نیویارک ٹائمز جیسے اخبارات پر سرسری نگاہ ڈالیں تو ان میں پورے صفحے پر مشتمل گھڑیوں کے اشتہار بھی نظر آئیں گے۔ وہ گھڑی آپ کی کلائی پر بندھی ہو تو لوگ آپ کو فوراََ ایک امیر وکبیر انسان مان لیں گے۔ آپ کی کلائی پر بندھی گھڑی کا بنیادی مقصد وقت کا پتہ چلانا نہیں رہا۔ آپ کے “امیر” ہونے کا اعلان بن گیا ہے۔ نوجوانوں کو مگر ایسے اعلان کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی توجہ گزشتہ کئی دہائیوں سے خود کو “فٹ” دکھنے پر مبذول رہتی ہے۔ ان کی ترجیح جان کر موبائل فون اور لیپ ٹاپ بنانے والے ایپل جیسے معروف ادارے نے ایک گھڑی بنائی۔ یہ آپ کو مسلسل آگاہ رکھتی ہے کہ آپ کتنے قدم چلے ہیں۔ آپ کی فٹنس کاریٹ کیا ہے۔

سوشل میڈیا کی بدولت اشیائے صرف بنانے اور بیچنے والوں کی ترجیحات مجھ غریب کا درد سر نہیں۔ روز کی روٹی روز کمانے کو مجبور قلم گھسیٹ کی حیثیت میں بنیادی طورپر جاننا یہ چاہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم میرے پیشے یعنی صحافت پر کیسے اثرانداز ہورہے ہیں۔ یہ سوال ٹموتھی تفصیلاََ زیر بحث نہیں لایا کیونکہ اس کی تحقیق کا اصل مقصد یہ دریافت کرنا تھا کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم فرد کی آزادی یقینی بناتے ہوئے معاشرے کو توانا تر اور انسان دوست بنارہے ہیں یا نہیں۔

عملی زندگی کی بے شمار مثالوں سے مگراپنی کتاب میں اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ سوشل میڈیا کے فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم آپ کے دل ودماغ میں موجود تعصبات وخیالات کے اظہار کا موقع دینے کے بجائے ان کا “سراغ” لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا “سراغ” لگانے کی بدولت ٹرمپ اور مودی جیسے افراد نے سوشل میڈیا کے بے رحمانہ استعمال کی بدولت “عوامی مقبولیت” حاصل کی۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے بجائے مگر اپنے اقتدار کوطول دیا۔ نہایت ڈھٹائی سے “عوامی حمایت” کو اب ٹرمپ اپنے خاندان کا ذاتی کاروبار نہایت ڈھٹائی سے بڑھانے کے لئے استعمال کررہا ہے۔

دیگر ملکوں کے رہ نمائوں کے ذکر میں الجھ گیا تو آج کے کالم کے اصل موضوع سے بھٹک جائوں گا۔ بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ سوشل میڈیا “خبر” کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے۔ اس ضمن پر توجہ دینے سے قبل آپ کو دوبارہ اس حقیقت کو یاد رکھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم آپ کے خیالات کو اظہار کا موقع نہیں دیتے۔ ان کا “سراغ” لگاتے ہیں۔ آپ کے دل ودماغ میں چھپے خیالات، خوف اور واہموں کی خبرہوجائے تو “صحافی” بھی ان کے مطابق “خبریں” ڈھونڈنا نہیں ایجاد(گھڑنا) شروع ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے مثلاََ تین “خبریں” ہمارے ہاں شدت سے زیر بحث رہیں۔

علی امین گنڈاپور کی خیبرپختونخواہ کے وزارت اعلیٰ کے منصب سے علیحدگی کے بعد بات پہنچی نوازشریف کے اڈیالہ جیل پہنچ کر عمران خان سے ملاقات تک۔ دریں اثناء ایوان صدر کو آصف علی زرداری سے خالی کروانے کا ذکر بھی شروع ہوگیا۔ تازہ ترین قیاس آرائیاں پراپرٹی کے اس مشہور ٹائی کون کے بارے میں ہیں جن سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے 2010ء میں مجھ پر ایک ہائوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ اور بینک میں رقم لینے کا الزام لگایا تھا۔ میں آج بھی اس الزام کی تردید کرنا نہیں چاہتا۔ محض یہ خواہش ہے کہ اس پلاٹ اور بینک اکائونٹ کا قبضہ دلوایا جائے جو میرے نام منسوب ہوئے تھے۔

ذاتی پھکڑپن سے قطع نظر مذکورہ ٹائی کون کے وطن آنے کی “خبر” کیوں چل نکلی ہے؟ اس سوال کا جواب تھوڑی لگن سے ڈھونڈنا شروع کریں تو سمجھ آتی ہے کہ بحیثیت قوم ہم شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وطن عزیز کے امیر وکبیر افراد ہر نوع کے حکمرانوں کو بالآخر اپنے حق میں “رام” کرلیتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں نسلوں سے موجود اس سوچ نے اس “خبر” کومصدق ٹھہرادیا ہے کہ ٹائی کون وطن آرہے ہیں۔ ہماری اکثریت نے جب یہ طے کرلیا کہ ان کا آنا ٹھہر گیا ہے تو وہ آجائیں گے۔ ہمیں ان کے آنے کی خبر نہیں دی جارہی۔ ہمارے ذہنوں کو ان کی “آمد” کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔

Facebook Comments Box