Bilawal Bhutto Zardari Ki Jarehana Safarat Kari

پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال رہ نما بلاول بھٹو زرداری سے عرصہ ہوا ملاقات نہیں ہوئی۔ فون پر بات کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ ان سے براہ راست ملاقات کے بغیر بلاول کی حالیہ سیاست کے بارے میں اپنے صحافیانہ تجربے کی بنیاد پر محض قیاس آرائی ہی کرسکتا ہوں۔ اس ضمن میں مزید بڑھنے سے قبل یہ وضاحت پیش کرنا لازمی ہے کہ اگر موصوف سے ملاقات نہیں ہوئی تو اس کا ذمہ دار عملی صحافت سے ریٹائر ہوا یہ کالم نگار ہے۔ شاید ان سے رابطے کی کوشش کرتا تو وہ نہایت کھلے دل سے ملاقات کے لئے وقت نکال لیتے۔

بہرحال چند روز قبل میں نے الجزیرہ ٹی وی پر پیپلز پارٹی کے رہ نما کا ایک انٹرویو سنا۔ پاک -بھارت تعلقات کے تناظر میں اس انٹرویو میں سابق وزیر خارجہ رہے بلاول بھٹو زرداری کے ادا کردہ چند نکات میری دانست میں “جارحانہ سفارت کاری” کا اظہار تھے۔ یہ نکات مگر ریگولر اور سوشل میڈیا پر کماحقہ انداز میں اجاگر نہیں ہوئے۔ انگریزی روزنامہ ڈان کے صفحہ اوّل پر ان کا مخصوص تناظر میں ذکر ہوا۔ اس کے بعد محرم کی چھٹیاں شروع ہوگئیں۔

بلاول بھٹو کی میری دانست میں “جارحانہ سفارت کاری” ان “خبروں” کے انبار تلے بھی دب گئی جو سنسنی خیز انداز میں ہمیں علی امین گنڈاپور کی خیبرپختونخواہ کی وزارت اعلیٰ سے فراغت، آصف علی زرداری کی جانب سے ممکنہ طورپر ایوان صدر سے “رخصت” اور تعمیراتی کاموں سے جڑے ایک ٹائی کون کی پاکستان آمد کے بارے میں ذہنی طورپر تیار کررہی تھیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا کی توجہ اب یہ طے کرنے میں بھی مصروف ہوگئی ہے کہ اپنے والد کی رہائی کے لئے عمران خان کے فرزند- قاسم اور سلیمان- 5اگست کے قریب ایک عوامی تحریک چلانے کے لئے پاکستان آئیں گے یا نہیں۔ چسکہ بھری خبروں کے شوروغوغا میں پاک-بھارت کشیدگی کے حل کیلئے اٹھائے نکات پر توجہ دینے کا وقت “صحافیوں” کو دستیاب نہیں۔

“جارحانہ سفارت کاری” کی خاطر جو نکات میرے اندازے کے مطابق بلاول بھٹو زرداری ممکنہ طورپر کافی غوروخوض کے بعد اٹھارہے ہیں ان پر توجہ ایک حالیہ انٹرویو کے بعدبھی نہیں دی جارہی جو چیئرمین پی پی پی نے بھارت کے مشہور اینکر کرن تھاپر کو دیا ہے۔ وہ انٹرویو نشر ہوجانے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک فروعی بحث کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ اس کے ذریعے بلاول بھٹو زرداری کے مداح اس امر کی بابت شاداں محسوس کررہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال رہ نما کرن تھاپر جیسے جہاں دیدہ صحافی کے روبرو “دبے” نہیں۔

انہوں نے کرن کی جانب سے بے تکی اور مسلسل مداخلت کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ بلاول کے مداحین میں سے فقط چند ہی لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ جن دنوں چیئرمین پی پی پی کی والدہ آکسفورڈ یونین کی صدر تھیں تو کرن تھاپر نے بھی کیمرج یونیورسٹی کی یونین کا انتخاب لڑا تھا۔ مجھے اب یاد نہیں کہ وہ یہ انتخاب جیتا یا ہار گیا تھا۔ کرن تھاپر کے حوالے سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کا بیٹا ہے اور اس کی والدہ بھارت کی مشہور تاریخ دان مانی جاتی ہیں۔ کرن تھاپر اور ان کی والدہ کو مگربھارت کے ہندوانتہا پسند اشرافیہ طبقے سے ابھرے “لبرل اور سیکولر” ٹھہراتے ہوئے طعنوں کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔ مودی حکومت نے کرن کو مین سٹریم میڈیا میں ٹکنے نہیں دیا۔ وہ اب رضا کارانہ طورپر چلائی ایک خبررساں ایجنسی کے لئے دھواں دھار انٹرویو کرتا ہے۔ یہ ایجنسی چلانے کے لئے عوام سے “چندے” کی صورت سبسکرپشن کی استدعا کی جاتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا انٹرویو کرتے ہوئے مگر “آزاد منش” کرن تھاپر بھی بنیادی طورپر ان ہی الزامات کو متعصبانہ ذہن کے ساتھ دہراتا رہا جو بھارتی انتہا پسند پاکستان کو مسلسل رگیدنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ “دہشت گردی کی سرپرستی” اس ضمن میں سر فہرست ہے۔ پاکستانیوں کو “دہشت گردی کا سرپرست” ٹھہراتے ہوئے یہ حقیقت اپنی آسانی کے لئے بھلادی جاتی ہے کہ پاکستان میں “دہشت گردی کی نرسریاں” اس وقت قائم ہونا شروع ہوئیں جب دسمبر1979ء میں سوویت افواج افغانستان کے “کمیونسٹ انقلاب” کو بچانے کے نام پر کابل میں در آئی تھیں۔

سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں روس افغانستان میں داخل ہوگیا تو امریکہ نے اس سے ویت نام میں ہوئی سبکی کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ امریکہ کی قیادت میں نام نہاد “آزاد دنیا” افغانستان کو کمیونزم سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی زمین پر “جہادی دستوں” کی تربیت کرناشروع ہوگئی۔ افغانستان میں جہاد برپا کرنے کو آمادہ گروہوں کو افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کا ناطقہ بند کرنے کے لئے بھاری بھر کم سرمایہ اور جدید ترین ہتھیار فراہم کیے گئے۔ افغانستان میں ناکام ہوکر کمیونسٹ فوجوں کے انخلاء کا فیصلہ ہوا تو امریکہ “مجاہدین” ہی نہیں بلکہ ان کے مبینہ سرپرست-پاکستان- کو بھی بھول گیا۔ پاکستان کوایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لئے ہمار ے خلاف سنگین تر اقتصادی پابندیاں لگادی گئیں۔

“مجاہدین” کو سوویت یونین کے انہدام کے بعد فراموش کردینے والے امریکہ کو یہ حقیقت یاد ہی نہ رہی کہ بوتل سے نکالے “جن” استعمال کرنے کے بعد بوتل میں واپس ڈالے نہیں جاسکتے۔ برسوں کی سرمایہ کاری اور سرپرستی سے جس “جہادی سوچ” کو فروغ دیا گیا تھا بالآخر نائن الیون کی صورت امریکہ کے کاروباری مرکز-نیویارک- میں خوفناک انداز میں نمودار ہوگئی۔ امریکہ کو اس کی وجہ سے دو دہائیوں تک اپنی افواج کو افغانستان میں ذلیل ورسوا کروانا پڑا۔ پاکستان کی ریاست بھی 1980ء کی دہائی میں پروان چڑھائی “جہادی سوچ” کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بھارت مگر ایسے عناصر کی “خودمختاری” تسلیم کرنے کو انکاری ہے۔ احمقانہ انداز میں بضد رہتا ہے کہ بھارت اور خصوصاََ مقبوضہ کشمیر میں ہوئی “دہشت گردی” کی ہر واردات ریاست پاکستان کے ایما پر ہوتی ہے۔

اپریل 2025ء میں مقبوضہ کشمیر کے پہلگام پر ہوئے حملے کے بارے میں مودی حکومت نے ایسا ہی رویہ اختیار کیا اور بالآخر 6اور 7مئی کی رات پاکستان کو “سبق” سکھانے کے لئے ہمارے تین شہروں پر میزائلوں کی بارش برسادی۔ پاکستان کی جانب سے اس کا جواب آیا تو امریکہ کو “ایٹمی جنگ” رکوانے کو متحرک ہونا پڑا۔ 87گھنٹے بعد فائربندی ہوگئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ بھارت کب تک اپنے ہاں ہوئی کسی بھی دہشت گردی کی واردات کے بعد پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرتا رہے گا۔ اس کی پیش بندی کے لئے جنوبی ایشیاء کے دو ایٹمی ممالک کے مابین بالغانہ مکالمے کی ضرورت ہے۔ میری دانست میں بلاول بھٹو زرداری ایسے ہی کسی مکالمے کی راہ بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔

Facebook Comments Box