یہ میرے لئے اعزاز کی با ت تھی کہ ہائیر ایجوکیشن پر بہت زیادہ توجہ صرف کرنے والے پروفیسر نعیم مسعود نے مجھے کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، ڈینز اور دیگر ماہرین تعلیم کے ساتھ بٹھا دیا تھا اور ہم اعلیٰ تعلیم پر بات کر رہے تھے۔ مجھے بطور صحافی اور اینکر پرسن یہ کہنے میں عار نہیں کہ صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور اس جیسے دیگر حقیقی موضوعات ہمارے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اہمیت کے حامل نہیں رہے اور جب ہم انہیں سرکولیشن اور ریٹنگز کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عوام بھی ان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتے۔ ہم ان موضوعات پر اسی وقت بات کرتے ہیں جب ہم نے انہیں بنیاد بنا کے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے یعنی بنیادی موضوع سیاست ہوتا ہے اور ان مسائل کامحض تڑکا لگایا جاتا ہے۔
ہمارے ماہرین تعلیم کا اس پر اتفاق تھا کہ جب تک ہم جی ڈی پی کا کم از کم چار سے چھ فیصدتعلیم پر خرچ نہیں کریں گے تب تک جدید اور مہذب اقوا م کے معیار پر نہیں پہنچ سکتے۔ وہ شکوہ کر رہے تھے کہ اگر افراط زر کو مدنظر رکھا جائے تو تعلیم کا بجٹ اعداد وشمار میں بڑھنے کے باوجود حقیقت میں کم ہوتا چلا جا رہا ہے اور میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اگر ہمیں اپنی نسلوں کی بہتری درکار ہے تو ہمیں تعلیم پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا ہوگا لیکن بصد احترام، میرے ان سے کچھ سوالات بھی تھے اور سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ہمارے پاس جو بجٹ موجود ہے، ہمیں جو وسائل فراہم کئے جاتے ہیں کیا ہم ان کا استعمال اپنی پوری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے پوری دیانتداری سے کرتے ہیں تو میرے پاس اس کا کوئی قابل اطمینان اور قابل فخر جواب نہیں ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پسند ناپسند، مکر و فریب، سازشیں اور بے ایمانی کسی بھی دوسرے ادارے سے کم نہیں ہے۔ ہمارے اساتذہ کے کردار وہ نہیں ہیں جن کی باتیں ہم کتابوں میں کرتے ہیں۔
میں اخلاق او رکردار کی بات بعد میں کروں گا کہ برادرم نعیم مسعود نے اس بڑے مکالمے کا موضوع معیشت میں اعلیٰ تعلیم کا کردار رکھا تھا اور میرے مطابق معیشت میں کردار ہی اعلیٰ تعلیم ادا کرتی ہے ورنہ سکول ایجوکیشن سے ہم اپنی خواندگی کی شرح تو بڑھا سکتے ہیں مگراس سے کوئی معاشی اور اقتصادی انقلاب نہیں لا سکتے۔ ہائیر ایجوکیشن، بنیادی طور پر تحقیق کا دوسرا نام ہے مگر کیا ہماری جامعات میں ایسی تحقیق ہو رہی ہے جو معاشرے اور ریاست کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے ہو۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایسی ایسی پی ایچ ڈیز دیکھی ہیں کہ ان کے عنوانات دیکھ کر ہی ہاسا نکل جاتا ہے۔
ہمارے لائبریریوں میں ایسے مقالہ جات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن کو ردی والے کے سوا کوئی دوسرا اٹھانا پسند بھی نہ کرے۔ ہمارے مسائل کچھ اور ہیں اور ریسرچ کچھ اور ہو رہی ہے۔ کیا یہ افسوسناک نہیں کہ ہماری ریسرچ کا اصل مقصد کچھ نیا جاننا اور سامنے لانا نہیں اپنے ساتھ محض ڈاکٹر لکھوانا ہے تاکہ اس کے ذریعے نوکری حاصل کی جا سکے یا نوکری کا گریڈ بہتر کیا جا سکے۔ جب آپ کا اعلیٰ ترین مقصد ہی گھٹیا ترین ہوگا تو آپ کچھ بہتر کیسے کر سکیں گے۔ میں نہیں جانتا کہ ریسرچ او ر مقالہ جات کے موضوعات اورمعیار کا تعین کون کرتا ہے اور کیا ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہمارے بہت سارے ڈاکٹر ہوں؟
میرے سامنے اہل علم تھے اور ہماری آنے والی نسلوں کے معمار۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میں نے بہت برس پہلے اعداد وشمار دیکھے تھے جن میں ایسے لوگوں کی تعداد حیران کن تھی جنہوں نے سرکار سے بیرون ملک تعلیم و تحقیق کے لئے لاکھوں اور کروڑوں روپے لئے اور پھر بھاگ گئے۔ جب ہمارے اساتذہ کا اخلاقی معیار یہ ہوگا تو پھر وہ طالب علموں کے اخلاقی معیار کو کیسے بہتر بنائیں گے۔ جب ان کے اپنے خواب چوری چکاری، فریب اور فرار کے گرد گھومتے ہوں گے تو وہ بچوں کو کیسے بڑے خواب دکھائیں گے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے سے پہلے انسان بنانے کی تعلیم دینی چاہئے۔ ا نہیں میتھ اور فزکس پڑھانے سے پہلے اخلاقی اصول پڑھانے چاہئیں۔ انہیں لیبارٹریوں میں تجربات کرانے سے پہلے سڑکوں پر کھڑے کرکے سکھانا چاہئے کہ جو ٹریفک سگنل توڑ دے وہ ہرگز ہرگز بہادر اور ہیرو نہیں ہوتا اور جو ٹریفک سگنل کی پابند ی کرے اسے ہرگز ہرگز بزدل اور الو کا پٹھا نہیں سمجھنا چاہئے، وہ اصل ہیرو ہے۔ میری نظر میں یہ اخلاقی تعلیم اس وقت زیادہ اہم ہوجاتی ہے جب میں اپنے ڈاکٹروں کو ہڑتالیں کرتے ہوئے دیکھتا ہوں اور اپنے انجینئروں کے شعبوں میں رشوت کے پکے ریٹس دیکھتا ہوں۔
ہمارے بہت سارے مسائل اختلافی آرا کے ساتھ بھی ہیں جیسے یہ کہ ہم نئی یونیورسٹیاں بناتے چلے جائیں یا پرانی یونیورسٹیوں کے فنڈز بڑھائیں، دونوں طرف کے دلائل موجود ہیں اور یہ تو بڑی نوعیت کا مسئلہ ہے ہم تو ابھی تک اس بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرسکے کہ ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم اردو یا انگریزی میں دینی ہے یا پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی میں دینی ہے، موخرالذکر تو اب کم از کم آدھے پاکستان یعنی پنجاب میں کوئی سوال بھی نہیں کرتا۔
میرا کہنا تھا کہ ہم نہ میثاق جمہوریت نہ کرسکے او رنہ ہی میثاق معیشت تو کم از کم ہم میثاق تعلیم تو کر لیں۔ ہم اپنی تعلیم کو سیاسی مسئلہ اور سیاسی نعرہ نہ بنائیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں کچھ بنیادی باتوں پر اتفاق کر لیں، ماہرین کے مشورے سے ایک راہ عمل کا چناؤکر لیا جائے اور اس کے بعد جو بھی حکومت آئے اسے سیاسی معاملہ بنانے کی بجائے قومی معاملہ بنا کے چلے مگر مجھے لگتا ہے کہ میری یہ خواہش، خواہش ہی رہے گی کہ ہمارا ملک کے آئین، دفاع، کشمیر، ایٹمی پروگرام اور تعلیم جیسے موضوعات پر اتفاق ہوجائے، ان پر ہم ایک ہوجائیں۔
اساتذہ کرام نے کچھ مسائل اور بھی بتائے جیسے کہ تعلیم کے شعبے میں بھی بیوروکریسی کا حاوی ہونا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس وقت وائس چانسلروں اورڈپیارٹمنٹس کے چیئرمینوں کوبیرون ملک سے کانفرنسوں کی دعوتیں ان کے اپنے خرچ پر آتی ہیں مگر انہیں بیوروکریسی کی طرف سے جانے کی اجازت نہیں ملتی جو کہ حیران کن ہے۔ دوسرے اساتذہ کا یہ بھی مسئلہ رہا کہ پنجاب حکومت نے ٹیکس ریبیٹ اچانک ختم کر دیا بلکہ یہ قرار دیا کہ جو سال بھر دیا گیا تھا وہ بھی غلط تھا اوراس کے بعد جون اور جولائی میں ملنے والی تنخواہوں سے ایک ساتھ لاکھ، لاکھ روپے تک کی کٹوتی کر لی گئی، یہ واقعی بڑی زیادتی ہوئی۔
میں وزیراعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ اس اقدام کے بعد مجھے بہت سارے یار دوست اساتذہ نے کہا کہ وہ مسلم لیگ نون کے پکے ووٹر تھے مگر اب وہ پنجاب میں بھی پی پی کو ہی ووٹ دیں گے۔ وزیراعلیٰ کو ایسے مسائل پیدا کرنے والوں پر نظر رکھنی چاہئے۔