Siasat Mein Pehlwani Asool Na Chorne Wala Nadeem Pehlwan

پاکستانی سیاست میں رواداری، احترام اور محبت بھرے رویے اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند برس میں گالم گلوچ، بد تمیزی اور عدم برداشت کے جس کلچر کو پروان چڑھایا گیا اس سے غیر سنجیدگی کو فروغ ملا۔ کبھی سیاسی شخصیات کی گفتگو اور وضع داری کی مثال دی جاتی تھی۔ لوگ اختلاف رائے کا طریقہ جانتے تھے، مکالمہ ہوتا تھا، دلائل دئیے جاتے تھے۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اہمیت رکھتا تھا۔

یہ درست ہے کہ شیخ رشید سمیت کچھ افراد کے ذو معانی جملوں کا ذکر آج بھی کیا جاتا ہے لیکن اسے کسی بھی دور میں اچھا نہیں سمجھا گیا۔ مجموعی طور پر سیاسی کلچر اپنا ایک مخصوص مزاج رکھتا تھا۔ نوابزادہ نصر اللہ جیسے سیاست دانوں کے لب و لہجہ سے نوجوان نسل کی اکثریت آشنا ہی نہیں۔ ماضی میں بھی ایک ہی گھر میں دو متحارب جماعتوں کے حامی ہوتے تھے لیکن محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گریبان نہیں پکڑا جاتا تھا۔

بدقسمتی سے گزشتہ چند سال سے شعور کے نام پر گالم گلوچ اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بدتمیزی اور عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھا۔ اس میں کافی حد تک سوشل میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ ہم ایک دوسرے کے سامنے شاید اس حد تک بدتمیزی نہیں کر سکتے جو کہ سوشل میڈیا کے پردے میں ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر فیس بک اور ٹویٹر کی بحث اس حد تک چلی جاتی ہے کہ بعد میں معذرت یا شرمندگی کا موقع بھی نہیں مل سکتا۔ میں نے یہ تجربہ بھی کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اگر کوئی دوست بات اخلاقی دائرے سے باہر لیجانے لگے تو میں اسے کہتا ہوں، بھائی یہ لمبی بحث ہے، مل کر چائے پیتے ہیں اور پھر اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ یقین مانیں چائے پر وہی شخص مکمل احترام سے بات کرتا ہے اور بات “پوائنٹ آف نو ریٹرن” تک نہیں جاتی۔ ایک عرصہ بعد لاہور میں ایک ایسا سیاست دان ملا جسے دیکھ کر پرانی لاہوری سیاست کی یاد تازہ ہوگئی۔ ندیم پہلوان بنیادی طور پر لاہوری پہلوان ہیں۔ ان کے والد بھی پہلوان تھے اور یہ خود بھی دیسی کشتی کے چیئرمین ہیں۔ پہلوانی کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست میں بھی متحرک ہیں۔

وہ لگ بھگ تیس سال شہباز شریف کے ساتھی رہے لیکن جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تو یہ ان سے الگ ہو چکے تھے البتہ مسلم لیگ سے الگ نہ ہو سکے۔ لگ بھگ دو ڈھائی سال قبل انہوں نے مسلم لیگ ن چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی۔ میں نے پوچھا تیس سال کی رفاقت چھوڑنا مشکل ہوتا ہے، تو کہنے لگے میں پہلے بھی لیگی ہی تھا اور اب بھی لیگی ہی ہوں۔ میں جو جاننا چاہتا تھا وہ اس جواب میں شامل نہیں تھا اس لیے صاف صاف پوچھ لیا کہ لاہور کی سیاست میں رہ کر مسلم لیگ ن چھوڑنے پر کوئی انتقامی کارروائی ہوئی؟ کہیں آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا کم از کم کوئی دھمکی تو ملی ہوگی؟

ان کے جواب سے خوشگوار حیرت ہوئی، کہنے لگے ایسا کچھ نہیں ہوا، مجھے نہ شہباز شریف کی جانب سے کسی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی کہیں انتظامیہ میں سے کسی نے میرے ساتھ کوئی ناجائز سلوک کیا۔ یہ وہ جواب تھا جو اس کالم کی وجہ بنا۔ ہمیں پاکستان میں ایسے ہی سیاسی ماحول کی خواہش ہے جہاں فکری اختلاف یا کسی ناراضی کی بنیاد پر عدم برداشت کا مظاہرہ نہ ہو، جہاں ایک دوسرے کو ساتھی یا متحارب قبول کرنے کا ظرف پایا جائے۔

ندیم پہلوان تیس سال شہباز شریف کے ساتھی رہے لیکن جب الگ ہوئے تو شہباز شریف نے وہی کیا جو ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے مخدوم جاوید ہاشمی کے الگ ہونے پر کیا تھا یا چودھری نثار کی ناراضی کے بعد ان کے ساتھ رویہ رکھا گیا۔ جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ ن نے ہمیشہ عزت دی وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تو بھی خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر ان کا ذکر عزت و احترام سے کرتے نظر آئے لیکن جاوید ہاشمی جس جماعت میں گئے وہاں “باغی” اور “داغی” دونوں طرح کے نعرے لگتے رہے۔ سیاست سنجیدہ افراد کی بجائے جذباتی افراد کے ہاتھ لگی تو فکری اختلاف اور مکالمے کے دروازے بند ہونے لگے۔

مجھے خواجہ سعد رفیق اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ اپنی ہی جماعت کے ان فیصلوں پر تنقید کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں جنہیں وہ درست نہیں سمجھتے اور میں مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس لیے احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ وہ ایسی تنقید کے باوجود اپنے پرانے ساتھیوں کا احترام کرتی ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں میں ایسے فکری اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی قیادت کو اختلاف رائے پسند نہیں آتا لیکن اگر فکری یا نظریاتی اختلاف ہو تو احترام کے ساتھ راستے الگ ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے گالم گلوچ، انتقامی کارروائیوں یا تنگ نظری پورے سیاسی ماحول کو تباہ کر دیتی ہے۔

مجھے علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر کیے گئے تنقیدی حملے بھی اچھے نہیں لگے۔ مجھے شیر افضل مروت کے ساتھ ہونے والا سوشل میڈیائی سلوک بھی پسند نہیں آیا۔ مجھے علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے درمیان چلنے والی لفظی گولہ باری بھی مناسب نہیں لگی۔ اختلاف رائے کچھ اور ہوتا ہے، الزامات کی سیاست کچھ اور ہے۔ مجھے ندیم پہلوان سے مل کر اچھا لگا اور ان کی باتیں سن کر چودھری شجاعت حسین اور چودھری شافع حسین کی وضعداری بھی اچھی لگی۔

ندیم پہلوان مسلم لیگ ن کی تیس سال کی رفاقت چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے تو چوہدری شافع حسین نے انہیں لاہور کا جنرل سیکرٹری اور اپنی وزارتوں کے معاملات کا کوآرڈینیٹر مقرر کر دیا۔ انہیں یہ عزت دی کہ وہ ان وزارتوں سے متعلق کھلی کچہری لگانے لگے اور عوام کے مسائل وزارتوں تک پہنچا کر حل کرانے لگے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہر منگل دوپہر دو سے پانچ بجے ان وزارتوں کی کھلی کچہری لگاتا ہوں اور کسی قسم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہر شہری کا مسئلہ سن کر حل کرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کوئی رکاوٹ پیش آئے تو براہِ راست چوہدری شافع حسین یا چوہدری سالک حسین تک معاملہ پہنچاتا ہوں تاکہ فوری حل نکل سکے۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ کی نئی جماعت کی جانب سے آپ سے امید کی جا رہی ہوگی کہ آپ اگلے الیکشن میں لاہور سے زیادہ سیٹیں نکالنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لیے اپنے پرانے دوستوں کی ناراضی تو مول لینا پڑے گی؟ وہ کہنے لگے کہ زیادہ سیٹیں نکالنے کی کوشش تو ہر سیاسی ورکر کرتا ہے اور میں بھی کروں گا لیکن میں کچھ اصولوں کا پابند ہوں۔ دونوں لیگی جماعتیں ایک دوسرے کی اتحادی ہیں اس لیے میں ان حلقوں میں ایسی کوئی ایکٹیویٹی نہیں کروں گا جہاں ن لیگ کے امیدوار فاتح ہیں البتہ جہاں ن لیگ کو شکست ہوئی ہے ان حلقوں کو فتح کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ مجھے یہ رویہ اچھا لگا کہ اصولی سیاست کم ہی سہی لیکن اب بھی موجود ہے۔

Facebook Comments Box