تحریر۔محسن شہزاد مغل
نقدی معیشت اور ڈیجیٹل معیشت دو مختلف معاشی نظام ہیں جو کسی ملک کی مالیاتی ڈھانچے کو متعین کرتے ہیں۔ نقدی معیشت وہ نظام ہے جس میں زیادہ تر لین دین کاغذی کرنسی یا سکوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یہ نظام سادہ اور روایتی ہے لیکن اس کے ساتھ مالیاتی شفافیت کی کمی، ٹیکس چوری، اور کالے دھن کا خطرہ جڑا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ڈیجیٹل معیشت وہ نظام ہے جس میں لین دین الیکٹرانک ذرائع جیسے کہ ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز، موبائل ایپس، کیو آر کوڈز، اور آن لائن بینکنگ کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف تیز اور محفوظ ہے بلکہ مالیاتی شفافیت، دستاویزی معیشت، اور عالمی معاشی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
نقدی معیشت کا سب سے بڑا نقصان اس کی گمنامی ہے، جو ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، اور غیر قانونی سرگرمیوں کو ہوا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، نقد لین دین کا کوئی ڈیجیٹل ریکارڈ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے حکومتیں ٹیکس کی وصولی اور مالیاتی نگرانی میں مشکلات کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں نقدی پر مبنی معیشت کی وجہ سے ٹیکس نیٹ محدود رہتا ہے، جو قومی خزانے پر بوجھ بنتا ہے۔ مزید برآں، نقدی کا استعمال لین دین کے عمل کو سست کرتا ہے اور کاروباری اداروں کے لیے نقدی کے انتظام کے اخراجات بڑھاتا ہے۔
ڈیجیٹل معیشت کے فوائد کثیر جہتی ہیں۔ سب سے پہلے، یہ مالیاتی شفافیت کو یقینی بناتی ہے کیونکہ ہر لین دین کا ڈیجیٹل ریکارڈ موجود ہوتا ہے، جو ٹیکس چوری اور غیر قانونی مالی سرگرمیوں کو روکتا ہے۔ دوسرا، ڈیجیٹل ادائیگیاں صارفین کے لیے سہولت فراہم کرتی ہیں۔ کیو آر کوڈز، موبائل والٹس، اور کارڈز کے ذریعے ادائیگی نہ صرف تیز ہوتی ہے بلکہ اس سے نقدی لے جانے کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں۔ تیسرا، ڈیجیٹل معیشت کاروباری اداروں کے لیے لاگت کو کم کرتی ہے کیونکہ نقدی کے انتظام کے اخراجات ختم ہو جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر کئی ممالک نے ڈیجیٹل معیشت کو اپنا کر نمایاں فوائد حاصل کیے ہیں۔ سویڈن، جو دنیا کی سب سے کم نقدی استعمال کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے نے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے مالیاتی شمولیت کو بڑھایا اور ٹیکس وصولی میں اضافہ کیا۔ ایک تحقیق کے مطابق، سویڈن میں 98 فیصد لین دین ڈیجیٹل ذرائع سے ہوتے ہیں، جس نے غیر رسمی معیشت کو تقریباً ختم کر دیا ہے
اسی طرح بھارت نے اپنی ”ڈیجیٹل انڈیا“ مہم کے تحت یو پی آئی (Unified Payments Interface) متعارف کروایا جس نے 2022 میں 74 بلین سے زائد لین دین ریکارڈ کیے جو مالیاتی شفافیت اور معاشی ترقی کا باعث بنے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2025۔ 26 کے بجٹ میں نقدی پر مبنی لین دین پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ایک اہم قدم ہے۔ اس کے تحت پیٹرول پمپس پر نقد ادائیگی پر فی لیٹر 3 روپے اضافی چارج اور دیگر نقد خریداریوں پر 2 فیصد اضافی جنرل سیلز ٹیکس شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ پالیسی صارفین کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک معاشی ترغیب ہے۔ لیکن کیا یہ اقدام درست ہے؟
اس پالیسی کے تحت لین دین کا ایک منظم اور قابلِ دسترس ڈیجیٹل ریکارڈ تشکیل پائے گا، جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور کالے دھن کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی صارفین کی مالی عادات میں بھی تبدیلی آئے گی، کیونکہ اضافی ٹیکس انہیں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب کرے گا۔ یہ نہ صرف سہولت بخش ثابت ہو گا بلکہ مالی نظم و ضبط اور جوابدہی کے کلچر کو بھی فروغ دے گا۔ مزید برآں، ڈیجیٹل معیشت کو اپنانے سے پاکستان عالمی مالیاتی نظام کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے گا، جو کہ غیر ملکی سرمایہ کاری، بین الاقوامی تجارت اور عالمی اعتماد کے لیے ازحد ضروری ہے۔
اس پالیسی کے نفاذ میں متعدد چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ پاکستان میں نقدی ایک روایتی اور قابلِ بھروسا ذریعہ ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام تک رسائی محدود ہے۔ ایسے میں اضافی ٹیکس ابتدائی طور پر عوامی ناراضی اور مزاحمت کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے، جسے دور کرنے کے لیے حکومت کو وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری اور پالیسی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مزید برآں، اگر تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس ریلیف فراہم نہیں کیا گیا تو نقدی پر اضافی ٹیکس ان کے لیے مالی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے، جو کہ پہلے ہی مہنگائی اور معاشی غیر یقینی صورتحال سے نبرد آزما ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایسی پالیسیوں کے نفاذ سے قبل عوامی سہولت اور سماجی انصاف کو مدنظر رکھا جائے۔
اس کی کامیابی کے لیے حکومت کو چند اہم اضافی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے، عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک وسیع سطح کی آگاہی مہم ناگزیر ہے، تاکہ شہریوں کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کے فوائد، شفافیت، سہولت اور عالمی انضمام جیسے پہلوؤں سے روشناس کروایا جا سکے۔ دوسرا اہم قدم دیہی اور پسماندہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری ہے، جس میں انٹرنیٹ کی فراہمی اور ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کی دستیابی شامل ہے۔ ان اقدامات کے بغیر ڈیجیٹل معیشت کی طرف منتقلی صرف شہری مراکز تک محدود رہ جائے گی۔ علاوہ ازیں، حکومت کو ترغیبی پروگرامز جیسے ڈیجیٹل ادائیگیوں پر کیش بیک، چھوٹ یا انعامات متعارف کروانے چاہئیں تاکہ صارفین مالی فوائد کی صورت میں اس نظام کو اپنانے پر آمادہ ہوں۔ آخر میں، اس پالیسی کا مرحلہ وار نفاذ، پہلے بڑے شہری مراکز میں اور بعد میں بتدریج دیہی علاقوں میں، زیادہ موثر اور عوامی طور پر قابل قبول حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔ ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے عمل کرتے ہوئے ہی نقدی پر ٹیکس کا مقصد پورا کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے ڈیجیٹل معیشت کو فعال طور پر اپنایا، وہاں نہ صرف معیشت میں بہتری آئی بلکہ شفافیت، مالی شمولیت اور غربت میں کمی جیسے نمایاں فوائد بھی حاصل ہوئے۔ سویڈن کی مثال دی جائے تو وہاں نقدی کے استعمال میں نمایاں کمی کے بعد ٹیکس وصولی میں 15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ غیر رسمی معیشت کا حجم گھٹ کر محض 5 فیصد سے بھی کم رہ گیا۔ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیجیٹل لین دین ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت میں یو پی آئی (UPI) کے نظام نے مالیاتی شمولیت کو ایک نئی جہت دی، خاص طور پر چھوٹے کاروباروں کے لیے، جہاں 2022 میں 10 کروڑ سے زائد چھوٹے تاجر اس نظام کے ذریعے رسمی مالیاتی نظام کا حصہ بنے۔ اسی طرح، کینیا میں موبائل ادائیگی کا نظام ”ایم پیسا“ (M۔ Pesa) نہایت کامیاب رہا، جس نے 70 فیصد سے زائد بالغ آبادی کو بینکاری اور مالی خدمات تک رسائی فراہم کی، جس کے نتیجے میں غربت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ یہ عالمی مثالیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک واضح پیغام دیتی ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت کو اپنانا صرف ایک تکنیکی ضرورت نہیں بلکہ معاشی ترقی اور سماجی بہتری کا موثر ذریعہ بھی ہے۔
ڈیجیٹل معیشت پاکستان کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ نقدی پر ٹیکس لگانا ایک اہم قدم ہے، لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے جامع پالیسی، عوامی آگاہی، اور انفراسٹرکچر کی ترقی ضروری ہے۔ عالمی مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت مالیاتی شفافیت، شمولیت، اور معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے، تو یہ نہ صرف معاشی نظم و ضبط کو فروغ دے گا بلکہ عالمی معاشی منظر نامے میں ایک مضبوط مقام بھی حاصل کرے گا۔