تحریر۔عبداللہ حیدر
ٹائم میگزین میں ماہرنگ بلوچ کا حالیہ مضمون “ہم خوفزدہ نہیں ہیں” بظاہر انسانی حقوق کی ترجمانی کرتا ہے، مگر اس کے پسِ پردہ ایک خاص سیاسی و نظریاتی ایجنڈا کارفرما ہے جسے نہ صرف جانچنا ضروری ہے بلکہ اس کا پردہ چاک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ مضمون نہ صرف یکطرفہ اور گمراہ کن ہے بلکہ اس میں بلوچستان کی زمینی حقائق کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ مہرنگ بلوچ نے خود کو مظلوم اور ریاست کو جابر کے طور پر پیش کیا، مگر اس کہانی کا دوسرا رخ مکمل طور پر غائب ہے۔ یہ طرزِ تحریر نہ صرف حقائق سے نظریں چرا رہا ہے بلکہ بین الاقوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے جذباتی استعاروں کا سہارا لے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سچ کو دبانے اور منفی بیانیہ فروغ دینے کی ایک مربوط کوشش ہو رہی ہو۔
ماہرنگ بلوچ کے پس منظر پر اگر روشنی ڈالی جائے تو ان کے دعووں کی سچائی فوری طور پر مشکوک ہو جاتی ہے۔ ان کے والد، غفار لانگو، کسی انسانی حقوق کے کارکن کے بجائے ایک بدنامِ زمانہ کالعدم دہشتگرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کے فعال رکن تھے۔ وہ ایک مسلح جھڑپ میں مارے گئے اور ان کی قبر پر آج بھی وہی جھنڈا لہرا رہا ہے جسے عالمی برادری دہشتگرد علامت مان چکی ہے۔ ماہرنگ بلوچ خود سوشل میڈیا اور مختلف مواقع پر اس جھنڈے کو نہ صرف تسلیم بلکہ عزت کے ساتھ سلام پیش کرتی رہی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظریاتی وابستگی ایک ایسی تنظیم سے ہے جو پاکستان میں معصوم شہریوں، مزدوروں، اساتذہ، اور پنجابی نسل کے افراد کو نشانہ بنانے کی مجرم ہے۔
جب بات دہشتگردی کی مذمت کی ہو تو ماہرنگ بلوچ کی خاموشی بولتی ہے۔ انہوں نے آج تک نہ تو کسی بم دھماکے کی مذمت کی، نہ ہی کسی مزدور کے قتل پر آواز اٹھائی، اور نہ ہی ان حملوں پر افسوس کا اظہار کیا جن میں معصوم پاکستانی شہری شہید ہوئے۔ ان کا حالیہ بیان جس میں وہ ہر قسم کے تشدد سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہیں، ایک سیاسی چال معلوم ہوتی ہے تاکہ وہ انسانی ہمدردی حاصل کر سکیں اور خود کو عالمی سطح پر ایک “مظلوم” کے طور پر پیش کر سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی امن پسند ہیں تو پھر کیوں وہ اب تک BLA اور BLF جیسے گروہوں کے ظلم و ستم پر خاموش رہیں؟ کیوں وہ آج بھی انہی نعروں، پوسٹروں اور علامتوں کو استعمال کرتی ہیں جو کالعدم تنظیموں سے منسلک ہیں؟
ایک اور اہم پہلو مہرنگ بلوچ کا نوبل انعام کے لیے دعویٰ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں 2025 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے، حالانکہ نوبل کمیٹی کی پالیسی کے مطابق ایسی نامزدگیاں 50 سال تک خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ یہ بیان نہ صرف حقیقت کے منافی ہے بلکہ اس کا مقصد خود کو عالمی سطح پر معتبر اور قابلِ رحم دکھانا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف نوبل انعام جیسے معزز ادارے کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ انسانی حقوق کے نام پر جھوٹے دعوؤں کی روش کو فروغ دیتا ہے، جو دنیا بھر میں ان حقوق کی حقیقی جدوجہد کرنے والوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
جبری گمشدگیوں کے بیانیے میں بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ مہرنگ بلوچ نے عبدالودود ساتک زئی اور گلزادی جیسے افراد کو ریاستی جبر کا شکار قرار دیا، حالانکہ ساتک زئی کے بارے میں BLA خود اعتراف کر چکی ہے کہ وہ ان کی خودکش بمبار تھا۔ اگر کوئی شخص خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال ہو رہا ہو تو کیا اسے انسانی حقوق کی مثال کے طور پر پیش کرنا درست ہے؟ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا بیانیہ ایک پردہ بن چکا ہے جس کے پیچھے دہشتگردی کی ہمدردی چھپائی جا رہی ہے۔ ریاست پر الزامات عائد کر کے اصل ذمہ داروں کو چھپانے کی یہ روش نہ صرف خطرناک ہے بلکہ بلوچستان کے امن کو نقصان پہنچانے والی ہے۔
ماہرنگ بلوچ کے احتجاجات نے بلوچستان میں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ قومی شاہراہوں کی بندش نے مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا، ٹرانسپورٹ کا نظام مفلوج ہوا، اور معیشت کو نقصان پہنچا۔ ان کی تحریک نے عام شہریوں کو یرغمال بنا کر “جمہوری احتجاج” کے نام پر ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں صرف بلیک میلنگ اور افراتفری کو فروغ ملا۔ ریاست نے بارہا تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا، لیکن امن کے نام پر شہریوں کی تکالیف کو نظرانداز کرنا جمہوریت کا کوئی اصول نہیں۔ اگر مقصد صرف انسانی حقوق کی جدوجہد ہے تو اس کے اظہار کے مہذب طریقے موجود ہیں، جن کا استعمال جان بوجھ کر ترک کیا گیا۔
ایک خطرناک رجحان یہ بھی ہے کہ ماہرنگ بلوچ قومی سیاست کو اپنے علیحدگی پسند ایجنڈے سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عمران خان جیسے سیاسی رہنما کی قانونی مشکلات کا حوالہ دے کر وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ جیسے بلوچستان کی علیحدگی کی جدوجہد بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں کہ عمران خان اور ماہرنگ بلوچ ایک ہی سکے کے دو رخ ہے۔ عمران خان ماہرنگ بلوچ کو اپنے احتجاج میں شامل کرنے کی درخواست کرتا ہے تو دوسری طرف ماہرنگ اسی عمران خان کو مشکلات سے اسیر رہنما کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ ایک چالاک حربہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مخصوص مفاداتی سوچ کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کرتی ہے۔
جب ہم بلوچستان کے عوامی رجحانات کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک بالکل مختلف تصویر نظر آتی ہے جو ماہرنگ بلوچ کے بیان کردہ حالات سے متضاد ہے۔ حالیہ برسوں میں بلوچستان کے نوجوانوں نے تعلیم، کھیل، روزگار، اور قومی دھارے میں شمولیت کے جو مواقع حاصل کیے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی سطح پر ایک مثبت تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ گوادر، تربت، پنجگور، ژوب، خضدار، اور کوئٹہ جیسے شہروں میں تعلیمی اداروں، اسپورٹس ایونٹس، اور سماجی سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ ان سرگرمیوں کے ذریعے شدت پسندی کا بیانیہ کمزور پڑا ہے، اور نوجوانوں نے انتہا پسندی کے بجائے مواقع اور امید کا راستہ چننا شروع کیا ہے۔ اس وقت بلوچستان کی اکثریت ریاستِ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے، اور وہ علیحدگی پسند بیانیے کو مسترد کر چکی ہے۔
ماہرنگ بلوچ جیسے افراد بین الاقوامی میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان مکمل طور پر ریاست سے نالاں اور جدوجہد میں مصروف ہے، جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ریاست کی طرف سے ترقیاتی منصوبے، اسکالرشپس، نوجوانوں کے لیے کاروباری مواقع، اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مفاہمتی عمل مسلسل جاری ہے۔ یہ تمام کوششیں اس بات کا مظہر ہیں کہ حکومت طاقت کے بجائے مکالمہ، ترقی، اور شمولیت پر یقین رکھتی ہے۔ مگر یہ بیانیہ چونکہ سنسنی خیز اور جذباتی نہیں، اس لیے بین الاقوامی میڈیا اسے اہمیت نہیں دیتا۔ ایسے میں متوازن صحافت اور حقیقت پسندانہ تجزیے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے تاکہ کسی مخصوص ایجنڈے کی بجائے حقیقی عوامی آواز دنیا تک پہنچائی جا سکے۔
بلوچستان میں امن کی جدوجہد صرف ریاستی اداروں یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی قومی فریضہ ہے۔ ہمیں ان تمام عناصر کا پردہ فاش کرنا ہو گا جو انسانی حقوق، آزادی اظہار، اور جمہوریت جیسے الفاظ کو ڈھال بنا کر نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان کے بیانیے کے خلاف سب سے مؤثر جواب حقیقت، ترقی، اور یکجہتی کی مثالیں ہیں۔ جب بلوچ نوجوان تعلیم یافتہ، بااختیار، اور قومی دھارے کا حصہ بنیں گے، تو نہ صرف انتہا پسندی کا خاتمہ ہوگا بلکہ بلوچستان، پاکستان کی ترقی میں ایک مضبوط ستون بن کر ابھرے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مہرنگ بلوچ جیسے کرداروں کے دوغلے بیانیے کو بے نقاب کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان، بالخصوص بلوچستان، صرف دہشتگردی یا استحصال کی سرزمین نہیں بلکہ امید، مواقع، اور قومی یگانگت کی کہانی ہے۔